کراچی میں چھٹے سندھ لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد

صوبائی دارالحکومت کراچی میں چھٹے سندھ لٹریچر فیسٹیول کا آغاز تین مارچ سے ہوگیا جو کہ 5 مارچ تک جاری رہے گا۔

کراچی آرٹس کونسل آف پاکستان میں منعقد کیے گئے سندھ ادبی میلے کا افتتاح پہلی بار وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا جب کہ افتتاحی تقریب میں صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار علی شاہ، نورالہدیٰ شاہ، مشاہد حسین سید، شمس الحق میمن اور صحافی سلیم صافی سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔

سندھ ادبی میلہ پانچ مارچ اتوار کی شب تک جاری رہے گا، میلے کے تینوں دن مختلف موضوعات پر سیشن رکھے گئے ہیں، جن میں معاشرے کی فرسودہ روایات، خواتین کی برابری، سندھ کے سیلاب متاثرین کی بحالی، ڈیجیٹل مردم شماری میں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش سمیت ادب، زبان اور قومیتوں کے موضوعات پر مختلف سیشن رکھے گئے ہیں۔

تین روزہ میلے کے دوران مختلف پبلشرز نے کتابوں کے اسٹال بھی لگائے ہیں جب کہ مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ثقافتی اشیا کے اسٹال بھی لگائے گئے ہیں۔

 

 

میلے میں نہ صرف دارالحکومت کراچی بلکہ صوبے کے مختلف شہروں کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے بھی لوگ آئے ہیں اور میلے کے کئی سیشنز سندھی کے علاوہ دیگر زبانوں میں رکھے گئے ہیں تاکہ دوسری زبانیں بولنے اور سمجھنے والے لوگ بھی گفتگو سے استفادہ حاصل کریں۔

تین روزہ میلے کی افتتاحی تقریب سے وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی خطاب کیا جنہوں نے تجویز دی کہ مذکورہ میلے کا نام بھی سندھی زبان میں سندھ ادبی میلو ہونا چاہیے تھا۔

سید مراد علی شاہ نے خطاب میں کہا کہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے، میں خود لال شہباز قلندر کی نگری سے تعلق رکھتا ہوں، اس قسم کے ادبی پروگرامز ہونے چاہئیں اس سے انسانیت کا احترام بڑھتا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کے معاشرے کی 50 فیصد آبادی یعنی ہماری عورتیں، مائیں، بہنیں، سب اپنے گھروں میں قید ہیں، آئیے مل کر ان کیلئے مواقع تلاش کریں اور سندھ کی خواتین کی جہنم جیسی زندگی کو بدلنے کے لیے کچھ اہم کام کریں۔

 

 

میلے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار شاہ نےکچھ قوتیں اس طرح کے فیسٹیول کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں، دھماکوں کا جواب دھمال سے دیں گے، سندھ کا پیغام محبت و امن کا ہے، زبان اور قومیت کی بنیاد پر کسی سے اختلاف نہیں ، ایک مخصوص سوچ سے اختلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیسٹیول میں مختلف صوبوں سے لوگ آئے ہیں جو محبت کا پیغام لائے ہیں، برصغیر میں انتہاپسندی کا مقابلہ ثقافتی اداروں، ادیبوں اور فقراء نے کیا، لال شہباز قلندر پر جب دھماکہ ہوا تو تھوڑی دیر بعد دھمال شروع ہوا، ثابت ہوا کہ ہم بم کا جواب دھمال سے اور دھماکے کا جواب بیت سے دیں گے۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم اپنے کلچر کے فروغ کے لیے سندھ سے نکل کر لاہور گئے، لاہور نے بانہیں کھول کر ہمارا استقبال کیا، ثقافت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے، پنجابیوں نے اس پیغام کو قبول کیا، بہت سی مشکلات ہیں، مراد علی شاہ کی قیادت میں ہم گلگت بھی جا رہے ہیں، ہم نفرتوں کو ختم کریں گے۔

 

 

شمس الحق میمن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اس بار فیسٹیول کا موضوع ہے ، موسمیاتی تبدیلی کا سفر برسوں سے جاری ہے، گلیشیئر وقت سے قبل پگھلنا شروع کرتے ہیں ، برسات اور کاشت کاری کے موسم تبدیل ہوگئے ہیں، ہمیں اپنے فیصلے موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھ کر کرنے ہوں گے۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ سندھ لٹریچر فیسٹیول لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے، مزاحمت سندھ سے شروع ہوئی ہے، ایم آر ڈی تحریک سندھ کی مزاحمتی تحریک تھی، صرف ثقافت ہی نہیں سیاست میں سندھ کا اہم کردار ہے ، سندھ کے دارالخلافہ میں سندھیوں کی اکثریت نہیں،سندھیوں کی مہمان نوازی قابل فخر ہے۔

نور الہدی شاہ نے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ سے مردم شماری پر بات کی ہے ، ہم نے وزیر اعلیٰ سے نوکری نہیں مانگی نہ پیسے مانگے، ہم نے لاہور میں جا کر سندھ کی بات کی ہے، دنیا میں آرٹس کونسل سندھ کی بات کرتا ہے۔

نصیر میمن نے کہاکہ چھ سات ماہ قبل ہم بدترین المیے سے گزرے ہیں ، سیلاب کے بعد سندھ میں مزید بیس لاکھ لوگ غریب ہوگئے ، کھنڈرات سندھ سے ایک نئی زندگی کی شروعات ہونی ہے،