وطن چھوڑ کر سندھ آنے والے نایاب پرندوں کا غیر قانونی شکار
مہمان نوازی کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور سندھ کے باسی اب سردیوں کے موسم میں بیرون ممالک سے آنے والے مہمان پرندوں کی میزبانی بندوق کی گولیوں اور خونی جالوں سے استقبال کرنے لگے ہیں۔
ہزاروں میل کا سفر طے کرکے کئی ممالک عبور کرنے کے طرح طرح کے پرندے پاک سر زمین پر اپنا مسکن بناتے ہیں، زیادہ تر پرندے روس کے سرد ترین علاقے سائیبیریا سے سندھ آتے ہیں۔
خوبصورت پرندوں سے سندھ کے ساحلوں اور جھیلوں کا حسن مزید نکھر جاتا ہے، نایاب پرندوں کی چہکار ماحول کو دلکش بنادیتی ہے مگر غیر قانونی شکاریوں نےنایاب پرندوں کی نسل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ہجرت آسان نہیں ہوتی اور اس سے بھی مشکل بقا کی جنگ ہوتی ہے، سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی سائبیریا اور دیگر ٹھنڈے ممالک سے مہمان آبی پرندوں کی سندھ کی طرف شروع ہو جاتی ہے۔
ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور کراچی کے ساحلی علاقوں اور آبی ذخائر کو یہ مہمان پرندے اپنا مسکن بناتے ہیں، جہاں انہیں شکاریوں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
اپنا ملک چھوڑ کر سندھ آنے والے پرندوں کونج، سرخ بطخ، نیرگی، ڈیگوش پیلیکن، آڑی، مرغابی تلور سمیت کئی نسل کے نایاب پرندوں کر بندوق کی نوک پر رکھ دیا جاتا ہے۔
کچھ شکاری ایسے بھی ہیں جو جال اور آڈیو پلیئر کا استعمال کر کے ان معصوم پرندوں کو اپنے شکنجے میں پھنسا کر چند پیسوں کے عوض بیدردی سے شکار کرواتے ہیں۔
ماحولیات پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے دسمبر سے فروری تک ایسے نایاب پرندے بھی ساحلی علاقوں میں قیام کرتے ہیں جن کے پیر میں موجود رنگ سے ان کی شناخت ظاہر ہوتی ہے کے ان کا تعلق کس ملک سے ہے، ان کا پیدائش کا سال اور دوسری اہم معلومات بھی ان کے پاؤں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ مہمان پرندے جس علاقے کو اپنا محفوظ پناھ گاہ سمجھ کر اترتے ہیں تو اس پورے علاقے کا ماحول خوبصورت اور خوش گوار ہو جاتا ہے، پرندوں کی صبح سویرے سریلی آواز اور میٹھی دل پسند چہکار فضا میں گونجتی رہتی ہے، جس سے علاقے کے فطرتی حسن میں نکھار پیدا ہو جاتی ہے لیکن فطرتی ماحول کے دشمن بے رحم شکاری ان معصوم پرندوں کا شکار کرکے بیدری سے ٹانگیں توڑ کر بازاروں، گھروں اور مارکیٹوں میں کھلے عام فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔
نایاب پرندوں کے شکار کا یہ گورکھ دھندا کئی سالوں سے جاری ہے، جسے روکنے کے لیے محکمہ وائلڈ لائف بری طرح ناکام دکھائی دے رہا ہے، اگر شکار کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب آنے والے سالوں میں ان مہمان پرندوں کی آمد صرف قصے اور کہانیوں تک محدود ہو جائے گی۔
محکمہ جنگلی حیات کے تحفظ سمیت پرندوں کی حفاظت کے لیے کام کرنے والے دوسرے اداروں اور یہاں تک کہ کارکنان سمیت عام افراد کو بھی پرندوں اور ماحول کی حفاظت کے لیے آگے آنا پڑے گا۔