سیلاب، غربت اور رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھتیں سندھ کی دیہی خواتین

0
IMG-20251127-WA0044

عورت آدھی سندھ ہے، اور اس کی سماجی، معاشی اور تعلیمی بہتری کے بغیر سندھ کی ترقی کا تصور نا مکمل ہے۔ یہ کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ٹھٹھہ کے دور دراز علاقوں، میرپور ساکرو، چنڈ چتو اور لاکھو بھنبھرو میں رہنے والی نوجوان لڑکیوں میں زندہ حقیقت ہے، جو محرومیوں اور رکاوٹوں کے باوجود اپنے مستقبل کا راستہ خود تراش رہی ہیں۔

انہی باہمت لڑکیوں میں سے ایک نام ثریا لاشاری کا ہے، جو سمندری پٹی کی وہ بیٹی ہے جس نے سخت راستوں اور مشکل حالات میں بھی امید کا چراغ روشن رکھا۔ ثریا بتاتی ہے کہ اس کے گاؤں میں صرف پرائمری اسکول تھا، جس تک وہ اپنے بھائی کے ساتھ پڑھ سکی۔ میٹرک کے لیے اسے روزانہ ٹھٹھہ جانا پڑتا تھا۔ اس کے والد کراچی میں مزدوری کرتے ہیں، روز کی محنت کے بدلے صرف ہزار روپے ملتے ہیں۔ رشتہ داروں نے روکنے کی بہت کوشش کی، مگر والد نے دو ٹوک کہہ دیا کہ وہ سب رشتے چھوڑ سکتے ہیں مگر بیٹی کی تعلیم نہیں روکیں گے۔

اس کے بعد ایک ایسا دور آیا جس نے پورا خاندان جھنجوڑ کر رکھ دیا—2022 کا تباہ کن سیلاب، جس نے گھر بھی بہا دیے اور تعلیم بھی روک دی۔ پھر بڑے بھائی کی اچانک وفات نے حال مزید مشکل کر دیا۔ ثریا کہتی ہے کہ اس کی پڑھائی تین سال تک رکی رہی، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور گاؤں کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ سرسو اور دیگر تنظیموں کی مدد سے ثریا کا پرائیویٹ کالج میں داخلہ ہو گیا۔ آج اس کا ایک واضح مقصد ہے: ’’مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ اپنے گاؤں اور اپنے لوگوں کا علاج کرنا ہے۔‘‘ ثریا کو دیکھ کر اب پورا دیہات کہتا ہے: ’’اگر ثریا پڑھ سکتی ہے تو ہماری بیٹیاں کیوں نہیں؟‘‘

ان علاقوں کے بچوں میں بھی بڑے خواب زندہ ہیں، کوئی پولیس آفیسر بن کر جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے، کوئی ڈاکٹر بن کر اپنی ماں اور بہنوں کا علاج کرنا چاہتا ہے، اور کچھ استاد بن کر علم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ خواب ثابت کرتے ہیں کہ محرومی نے ان کی سوچ کو شکست نہیں دی۔

تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لاکھو بھمبرو میں صرف پرائمری اسکول موجود ہے۔ سکینڈری اور میٹرک کے لیے بچوں کو ٹھٹھہ جانا پڑتا ہے جو تقریباً 15 کلومیٹر دور ہے۔ نہ مناسب ٹرانسپورٹ ہے، نہ کرایہ برداشت کرنا آسان۔ اسی وجہ سے بہت سی بچیاں پانچویں کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ پاتیں۔

دوسری طرف خواتین اپنے ہاتھ کے ہنر سے گھر بھی چلاتی ہیں اور بچوں کی تعلیم بھی سنبھال رہی ہیں۔ رِلیاں، کپڑے، شادی کا سیٹ، گوٹہ ورک اور دیگر دستکاریوں کی وجہ سے اب ان کی آمدنی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اوسطاً خواتین ماہانہ 10 سے 18 ہزار روپے تک کما رہی ہیں۔ کئی معذور عورتوں کی زندگی بھی سرسو نے بدل دی ہے۔

سمندری علاقوں میں فش فارمنگ بھی خواتین کے روزگار کا نیا دروازہ بن چکی ہے، جہاں وہ مردوں کے ساتھ مل کر تالاب سنبھالتی ہیں، خوراک دیتی ہیں اور مچھلی بیچ کر گھر کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر گھروں میں گائے بھینس رکھی جاتی ہیں، جن کے دودھ کی فروخت خواتین کے ہاتھ میں اضافی آمدنی کا ذریعہ بنتی ہے اور انہیں مزید بااختیار بناتی ہے۔

سرسو کے سی او ذوالفقار کلہوڑو کے مطابق ان کی ٹیم نے پہلے لوگوں سے بات چیت کی مگر زیادہ فائدہ نہ ہوا، بعد میں خواتین خود ان تک آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو سرکاری نوکری دینا ممکن نہیں، اس لیے بلاسود قرضہ ایک بہترین سہولت ہے۔ سرسو کے پاس دو ہزار افراد کے لیے 20 کروڑ روپے کے قرضے موجود ہیں اور ان کی ریکوری 99 فیصد ہے، جو اعتماد کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

جی ایم آئی کی چیئرپرسن اور سینئر ماہر ماحولیات شینہ فراز کہتی ہیں کہ ان بچیوں کے عزم اور حوصلے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں ملک کی قیادت یہی نسل سنبھالے گی۔ خواتین کا کہنا ہے کہ بینکوں سے قرض لینا مشکل اور سود ادا کرنا بھاری ہوتا ہے، جبکہ سرسو کے بلاسود قرضوں نے ان کا بوجھ کم کر دیا ہے۔

ثریا لاشاری اور اس جیسی ہزاروں لڑکیاں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ اگر عورت پڑھی لکھی ہو تو پورا گاؤں بدل جاتا ہے۔ انہی بچیوں میں سے کل کی ڈاکٹر، پولیس آفیسر اور رہنما سامنے آئیں گی۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ سندھ کے روشن مستقبل کی جھلک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے