بدین کی درگاہ لواری شریف کے گادی نشین کے قتل کا مقدمہ تقریبا 40 سال بعد حل

فائل فوٹو: درگاہ لواری شرف، فیس بک

سندھ ہائی کورٹ نے 5 اکتوبر کو ضلع بدین کی درگاہ لواری شریف کی گادی نشینی کے تنازع کے دوران 1983 میں سات افراد کے قتل میں نامزد کل 32 میں سے زندہ بچ جانے والے 15 ملزمان کو تقریبا 40 سال بعد بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کر دیا۔

1983 میں ہونے والے تنازعے کے بعد صوبہ سندھ کی انتہائی اہم روحانی درگاہوں میں سے ایک ’لاڑ‘ میں واقع یہ قدیمی درگاہ 37 سال تک مکمل طور پر بند رہی تھی، اس دوران دونوں مخالف گروہوں بشمول پیر فیض محمد کے حامیوں کے گروپ اے اور پیر گل حسن کے حامیوں کے گروپ بی میں مسلسل تناؤ رہا۔

دو سال قبل جنوری 2020 میں درگاہ کو 37 سال کے بعد زائرین کے لیے کھولا گیا۔ اس وقت کرونا وائرس کی پابندیوں کے باوجود بڑی تعداد میں عقیدت مند درگاہ پہنچے تھے۔

ضلع بدین میں واقع یہ درگاہ روحانیت کے مشہور سلسلے نقش بندیہ سے تعلق رکھنے والے سلطان اولیا خواجہ محمد زمان لواری شریف کی ہے، درگاہ لواری شریف کے نام سے مشہور یہ درگاہ بدین شہر سے تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لواری شریف شہر میں واقع ہے۔

کیس کے زندہ بچ جانے والے تمام ملزمان کی باعزت بریت پر کیس کے کیس کے وکیل محمود اے قریشی ایڈووکیٹ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ تنازع کے دوران قتل ہونے والے سات اور زخمی ہونے والے تین افراد کے مقدمے میں کل 32 افراد کو بطور ملزم نامزد کیا گیا تھا، جس میں اب صرف 15 افراد زندہ بچ گئے تھے، جنہیں عدالت نے بری کیا۔

عدالتی حکم نامے کی نقل کے مطابق 1983 میں درگاہ لواری شریف کے گدی نشین پیر گل حسن کے انتقال کے بعد دو گروہوں میں تناؤ پیدا ہوگیا تھا، جس وجہ سے درگاہ پر ہونے والے حملے میں مدعی گروپ کے سات افراد قتل اور تین زخمی ہوگئے تھے۔ واقعے کا مقدمہ بدین تھانے میں دائر کیا گیا تھا۔ تحریری فیصلے کے مطابق مقدمہ 17 سال ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت رہا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق مقدمے کے ملزم گروپ کے 32 افراد کو کیس میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمے میں نامزد 32 افراد میں سے دو مفرور تھے جبکہ دو ملزمان کو مقدمے کے دوران بری کردیا گیا تھا۔ تین ملزمان سماعت شروع ہونے سے پہلے انتقال کرگئے تھے جبکہ آٹھ ملزمان سماعت کے دوران انتقال کرگئے۔ باقی 17 افراد کو سزا ہوگئی تھی۔ سزا کے دوران دو ملزمان کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد باقی 15 ملزمان نے ضمانت لے کر سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

ملزمان کی اپیل پر فیصلہ آتے آتے مزید 22 سال لگ گئے۔ آخرکار 39 سال کے بعد بدھ کو مقدمے کا حتمی فیصلہ سنا دیا گیا۔

جسٹس عمر سیال نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیس کا ریکارڈ غیر ضروری طور پر طویل بنایا گیا۔ کیس میں غیر ضروری طور پر بار بار طویل جرح کی گئی۔ اپیل کنندہ میں سے کوئی بھی شواہد کی روشنی میں سات افراد کے قتل میں ملوث نہیں پایا گیا اور پراسکیوشن ملزمان کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔