تاریخی ادبی بورڈ کو مذہبی گادی بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی  

سندھی ادبی بورڈ کے تاریخی لوگو کو تبدیل کرنے پر سندھ سراپا احتجاج پذیر ہے—فوٹو: فیس بک

کسی بھی ادارے میں یا کسی بھی دفتر میں کوئی بيورو کريٹ یا افسر جو اس شعبے سے ناواقف ہو وہ آکر چارج سنبھالتا ہے تو اسے پریشانی ہونے لگتی ہے کہ اس کام سے وہ  ناواقف ہے اور پھر وہ یہ منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے کہ آخر وہ ايسا کيا کام کرے جو سب کو ايسا محسوس ہو کي وہ کام کرنے والا آدمی ہے، اس لیے بعض اوقات وہ شخص ايسا کام بھی کر گزرتا ہے جو کے  پہلے ان کے دفتر میں کسی نے نہیں کیا ہوتا، بعض اوقات ایسے لوگ اپنے دفتر میں موجود کرسیوں، میزوں اور دیگر فرنیچر کو آگے پیچھے کرنے کے احکامات بھی جاری کرتے ہیں، یہ چیز یہاں سے لے کر یہاں رکھ دیں، اور یہ چیز یہاں ٹھیک نہیں لگتی، اس لیے اسے اس طرف رکھ دیں، پھر دفتر میں موجود عملہ آگے پیچھے کیا جاتا ہے یا پھر اسی طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے کام کیے جانے لگتے ہیں، تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے اور انہیں احساس دلایا جائے کہ اب مذکورہ دفتر کی بھاگ دوڑ کسی نئے اور پہلے سے زیادہ محنتی شخص کے ہاتھ میں آگئی ہے۔

سندھ کے قدیم ادارے سندھی ادبی بورڈ کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، اب  وہاں کی انتظامیہ  پریشان ہے کے  اس ادارے کا جو لوگو ہے وہ ان کے کام میں رکاوٹ بن رہا ہے، اس لیے انہوں نے وہ لوگو ہی ھٹادیا۔

سندھی ادبی بورڈ کا وجود قیام پاکستان سے پہلے کا ہے، یعنی 1940 سے یہ ادارہ ادب کی خدمت کر رہا ہے لیکن پچھلی دہائی سے یہ ادارہ مکمل طور پر پیچھے دھکیل دیا گیا ہے حالانکہ اس کے پاس بہت سے رسالے ہیں کتابوں کی چھپائی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

اب جدید دور آیا ہے، دنیا ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں داخل ہو چکی ہے، اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا کہ موجودہ کتابوں اور ماضی کی کتابوں کو انٹرنیٹ پر کیسے لایا جائے یا ان کتابوں اور رسالوں کی چھپائی پر جو بجٹ خرچ ہو رپا ہے وہ کیسے ریکور کیا جائے؟ کتابوں کی فروخت کو بڑھانے کے لیے اور کتابوں کی زیادہ سے زیادہ چھپائی اور لوگوں تک ان کی ترسیل تک کوئی توجہ نہیں دی جا رہی؟ 

یہ ادارہ تین جریدے شائع کرتا ہے، مھران، سرتیوں اور گل پھل ، جن کے معیار پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، نہ ہی یہ کبھی سوچا گیا ہے کے ان کو انٹرنیٹ پر کیسے لایا جائے؟ ان سارے میگزینز کے ماضی کا مواد یا ریکارڈ کیسے انٹرنیٹ پر لایا جائے؟ یہ جو اصل کام ہے اس ادارے کا وہ سارا بھول گئے ہیں شاید؟

آج کل یہ ادارہ اپنے اصل کاموں کو چھوڑ کر ادارے کا تاریخی لوگو تبدیل کرنے میں مصروف دکھائی دے رہا ہے، یہ ادارہ یہ سوچنے میں مصروف ہے کہ گائے کی مہر کو لوگو سے کیسے ہٹایا جائے جو مذہبی عقیدے کا مرکز رہی ہے۔

ایک مذہب ایک جانور کو اپنے عقیدے کا اگر مرکز بناتا ہے تو اس میں اس جانور یا اس سماج کا کیا قصور؟ اب ان کو کون سمجھائے کے عقل بڑی یا  بھینس؟

 یہ مہر قدیم ورثے سے ایک نشانی اور شناخت کے طور پر ملی تھی، اس شناخت کو زندہ رکھنے کے لیے اسے کسی ادارے کے لوگو کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس سے قبل ضیا آمریت کے دور میں مذہبی وجوہات کی بنا پر اس مہر کو ہٹا دیا گیا تھا۔ جسے اس وقت کے ادیبوں اور باشعور لوگوں نے  تحریک شروع کر کے اسے پھر سے بحال کروایا تھا، لیکن اب نہ ضیا ہے اور نہ ہی کوئی آمریت پھر پتا نہیں کس کے دباؤ پر قدیم ادارے کے قدیم لوگو کو ہٹانے کا فیصلا کیا گیا ہے؟ لیکن  اتنا بڑا فیصلا ہونے کے باوجود پھر بھی ہر طرف خاموشی اور سناٹا کیوں ہے؟ شاید اس دور میں جس طرح ضیا تھا اور اس سے مزاحمت کرنے والے ادیب تھے اب جس طرح ضیا نہیں اس طرح مزاحمت کرنے والے ادیب بھی نہیں رہے اور اب کوئی بھی لکھاری حکومت سے لڑنا نہیں چاہتا۔

وہ وقت گزر گیا، اب ہر ادیب حکومت سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتا، ایسا نہ ہو کہ اس کے پاس جو پناہ گاہ تھی وہ بھی ختم ہو جائے۔ ایک قدیم ادارہ جس کی شناخت اس ملک کے وجود سے بھی پہلے کی ہے اور نہ ہی اس ملک نے اس ادارے کو وجود میں لایا، یہ ادارا تو پھلے سے تھا تو اس سے آخرکار اس کی شناخت کیوں چھینی جا رہی ہے؟

بورڈ کا تاریخی لوگو گائے پر مشتمل ہے— فوٹو: سندھی ادبی بورڈ

آج اگر کسی تناظر میں مذہبی عقیدے کی مثال دے کر گائے کا لوگو ہٹا دیا جائے تو اس گائے کا دودھ پینا کون سی عقلمندی ہو گی؟ اگر گائے کا لوگو مذہبی بنیادوں پر نہیں ہٹایا گیا تو اسے ہٹانے کی کیا وجہ ہے؟ حال ہی میں 75 روپے کے نوٹ پر مارخور جانور کی تصویر لگائی گئی ہے گو کہ یہ کل کی بات ہے لیکن سندھی ادبی بورڈ کے  لوگو پر تو قدیم مہر لگی ہوئی ہے، آپ کو ایک جانور پسند نہیں اور آپ نے نوٹ پر دوسرا جانور چھاپ دیا ہے، کیا یہ عقلمندی ہوگی؟

اگر اس جانور کو قومی جانور کا درجہ حاصل ہے تو "گائے” کی بھی الگ حیثیت ہے، اس کی 5 ہزار سال قدیم ثقافتی حیثیت ہے، سندھی حروف تہجی میں گائے کو کس بنیاد پر دیا گیا؟ اگر گائے سے اتنی دشمنی تھی تو اتنے برس اس ادارے کے لوگو میں وہ کیا کر رہی تھی؟

سوال یہ بھی پے کے گائے اتنی خراب ہے تو  ادارے کے سابق سربراہان نے ضیا دور میں گائے کے لوگو کو بچانے کی تحریک میں حصہ کیوں لیا تھا؟ ادارے کے موجودہ سربراہ کی اتنی عمر بھی نھیں جتنا عرصہ اس لوگو کو ہوا ہے، تو وہ اس کو کس بنا پر ہٹانے کا اختیار رکھتا ہے؟

ایک ہی ریاست میں ایک جانور کو نشانہ بنا کر لوگو سے ہٹایا جا رہا ہے تو اسی ہی ریاست میں کرنسی نوٹ میں کسی اور جانور کا پرنٹ ہوتا ہے، اس لیے ایسے فیصلے افراد کے اختیار میں نہیں دینا چاھئے، ایسے فیصلے قوموں پر چھوڑے جاتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں، بہتر ہے کہ کتابیں چھاپیں اور انہیں ڈیجیٹلائز کیا جائے، اس طرف توجہ دی جائے جس سے ادارے کی ترقی ہو۔

ادارہ کسی قدیم جانور سے لڑ کر جدید دور میں کبھی داخل نہیں ہو سکتا، اگر ادارے کے سربراہ کی کسی مذھہی گادی سے وابسطگی ہے تو اس سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں، جس طرح ہمیں اعتراض نہیں اسی طرح سربرہ کو بھی گائے کے لوگو پر اعتراض نہیں کرنا چاھئے، باقی اسے  ایک قدیم ادارے کو ایک مذہبی گادی بنانے کی اجازت نہں دیی جا سکتی۔


تحریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں


ماجد سموں سندھ کے سینیئر صحافی ہیں، وہ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے میڈیا کا حصہ ہیں- انہیں مختلف موضوعات پر دسترس حاصل ہے، وہ سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں