سخت قوانین کے باوجود سندھ میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان برقرار

images (2)

سندھ میں کم عمری کی شادی ابھی تک ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ بچوں کی صحت، تعلیم اور ذہنی نشوونما کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق نابالغ لڑکیوں میں زچگی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے، جس سے ماں اور بچہ دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

سال 2013 میں سندھ اسمبلی نے "سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ” منظور کیا، اس قانون کے تحت شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی۔

کم عمری کی شادی کروانے پر قید یا جرمانہ ہوگا اور یہ جرم ناقابلِ ضمانت قرار دیا گیا، 2023 میں وفاقی شرعی عدالت نے بھی اس قانون کو درست قرار دیا۔

قوانین بنائے جانے کے باوجود سندھ کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان اب بھی جاری ہے، غربت اور جہالت کے باعث والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں بیاہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یہ مسئلہ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن، لیگل ایڈ سوسائٹی، یو این ایف پی اے، آواز دو، اور یوکے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کے تعاون سے منعقدہ اجلاس میں ڈسکس کیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ کم عمری کی شادی نہ صرف بچوں بلکہ پورے معاشرے کے مستقبل کو تباہ کر رہی ہے۔

چیئرپرسن کمیشن ام لیلی اظہر کا کہنا تھا کہ کم عمر لڑکیوں کی تولیدی صحت مکمل نہیں ہوتی، جس کے باعث ان کی زندگی اور بچوں کی جان کو خطرہ رہتا ہے۔

صوبائی وزیر برائے ویمن ڈویلپمنٹ شاہینہ شیر علی نے کہا کہ شادی کی عمر کو تعلیم اور صحت کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔

ماہرین نے کہا کہ نکاح خواں اور رجسٹرار کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ عمر کی تصدیق کے بغیر شادی نہ کریں۔ میڈیا اور اسکولوں کے ذریعے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔

دیکھا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونا اور سماجی رویوں کی سختی ہے، جو کم عمری کی شادی کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔