کراچی میں گندے پانی سے سبزیاں اگانے کا عمل جاری

سندھ فوڈ اتھارٹی (ایس ایف اے) نے انکشاف کیا ہے کہ شہرِ کراچی کے مضافات میں سیوریج کا پانی استعمال کرتے ہوئے سبزیاں اگانے کا عمل جاری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے سبزیاں کاشت کرنے کے لیے کہ گندے پانی کو صاف کیے بغیر استعمال کرنا متعدد بیماریوں بشمول ہیپاٹائٹس اور کینسر کا باعث بن رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق گندے پانی کو سبزیوں کی پیداوار کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ کیمیکل سبزیوں سے پانی کے ساتھ جذب ہو جاتے ہیں اور اس سے صحت متاثر ہوتی ہے۔

سندھ بھر میں گندے پانی سے سبزیاں اگانے کے عمل کے خلاف ماضی میں سندھ ہائی کورٹ سخت احکامات دے چکی ہے۔

لیکن عدالتی احکامات کے باوجود دارالحکومت کراچی میں سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگانے کا عمل جاری ہے۔

اس حوالے سے ڈان اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ متعلقہ حکام کو واضح احکامات جاری کر چکی ہے بالخصوص ملیر ریور بیڈ میں گندا پانی استعمال کرکے سبزیوں کی کاشت کرنے کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں لیکن تاحال حکام نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

اب سندھ فوڈ اتھارٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کراچی کے مضافات میں سیوریج کا پانی استعمال کرتے ہوئے سبزیاں اگانے کا عمل جاری ہے۔

سندھ فوڈ اتھارٹی نے حالیہ رپورٹ ہفتوں کے تفصیلی سروے اور فیلڈ آپریشنز کے بعد مرتب کی ہے۔

اتھارٹی کی رپورٹ میں متعلقہ قوانین کی مطلوبہ تعمیل کو یقینی بناتے ہوئے کھانے کے کاروبار کو ریگیولرائز کرنے کی کوشش میں اس سال شہر میں اب تک کی کارروائیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہے۔

کھانے پینے کے ریگیولر آوٹ لیٹس، پیداواری سہولیات اور کھانے پینے کی جگہوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ سندھ فوڈ اتھارٹی کی ٹیموں نے ایک قدم آگے بڑھایا اور پہلے مرحلے میں کراچی ڈویژن کے اندر تقریباً 500 ایکڑ کی نشاندہی کی جہاں زیادہ تر خوردنی زرعی پیداوار کی کاشت سیوریج کے پانی کے ذریعے کی جارہی ہے۔
فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل آغا فخر حسین نے کہا کہ اب تک ہم نے صرف کراچی میں ان علاقوں کی نشاندہی کی ہے جہاں گندے پانی سے زرعی سرگرمیاں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان علاقوں سے نمونے اکٹھے کرنے کے بعد اب ہم جامعہ کراچی کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں تاکہ تمام متعلقہ تفصیلات کو چیک کیا جا سکے جو کسی بھی کارروائی سے پہلے درکار ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل آغا فخر حسین نے کہا کہ سیوریج کا پانی سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن پھر بھی ہم ماہرین کے ساتھ مل کر ان زرعی پیداوار کی جانچ کر رہے ہیں تاکہ جب ہم حرکت میں آئیں تو کوئی ہم پر غیر منصفانہ اقدام کا الزام نہ لگا سکے۔