سندھی ادب کے بانی شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ
شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ کو سندھی زبان و ادب کا محسن اور خدمت گار بھی کہا جاتا ہے جو ڈرامہ نویس اور کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔
انھوں نے شیکسپیر سمیت متعدد غیر ملکی ادیبوں کی تخلیقات کا سندھی زبان میں ترجمہ بھی کیا، وہ 1929 میں آج ہی کے دن 3 جولائی کو وفات پاگئے تھے۔
سندھ کی اس معروف علمی شخصیت کی مختلف موضوعات پر کتابوں کی تعداد 400 سے زائد ہے۔ ان کی اکثر تحریریں ڈرامے سے متعلق اور ڈرامہ پر مشتمل ہیں جب کہ تراجم الگ ہیں۔
شہرۂ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور آٹھ ڈراموں کو سندھی زبان میں ترجمہ کرنے والے قلیچ بیگ نے خود بھی 32 ڈرامے تحریر کیے جو اس دور کے عشقیہ، تاریخی اور سماجی موضوعات پر ہیں۔ کہتے ہیں 1880 میں انھوں نے پہلا ڈرامہ’’ لیلی مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’ موہنی‘‘ تھا جس کا 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔
پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کیے گئے۔ مرزا قلیج بیگ کا ڈرامے منشی اور کوڑو نوٹ ان کی تخلیق کہلاتے ہیں جو مزاحیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔
مرزا قلیچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نو مسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے اس زمانے میں سندھ لائے گئے تھے۔ ان کے گھر 1853 میں مرزا قلیچ بیگ کی پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں انھوں نے مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔
قلیچ بیگ نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ ان کے بزرگوں کی زبان فارسی اور عربی رہی تھی۔
انھوں نے اپنے روزنامچوں میں اپنے بزرگوں اور اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ قلیچ بیگ نے 1872 میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم مکمل کرکے وہ سندھ اپنے گھر واپس آگئے۔ اس عرصہ میں وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں سیکھ چکے تھے۔
مرزا قلیچ بیگ نے سندھ میں علمی و ادبی کاموں کے ساتھ سرکاری نوکری کے لیے امتحان دیا اور کام یاب ہونے کے بعد مختلف عہدوں پر ترقی کی۔ وہ 1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر ہیڈ منشی بھرتی ہوگئے تھے۔ 1891 میں ایک اور امتحان پاس کر کے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں انھوں نے سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔
مرزا قلیچ بیگ نے ادبی مشاغل میں تصنیف و تالیف کے ساتھ بالخصوص تراجم کا سلسلہ جاری رکھا اور یہاں قارئین کو تاریخ، لطیفیات، شاعری، تنقید اور سائنس کے علاوہ کئی موضوعات پر عمدہ کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ان کے ناول کو پہلا سندھی ناول کہا جاتا ہے۔