سندھ کے پہاڑوں کو لیز پر نیلام کرنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج

سندھ کے پہاڑ لیز پر نیلام کرنے کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

سندھ حکومت نے صوبے کے مختلف پہاڑوں کو لیز پر دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

صوبائی حکومت کے مذکورہ فیصلے کے خلاف قانون دان یاسین گھنجو نے سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں پٹیشن دائر کردی۔

قانون دان یاسین گھنجو کا کہنا ہے کہ سندھ کے پہاڑ لیز پر دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔

یاسین گھنجو نے سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں دائر کردہ پٹیشن میں موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 28دسمبر 2021 کو ایک آرڈر پاس کرکےتاریخی پہاڑی سلسلوں کو لیز پر نیلام کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

خیال رہے کہ سرزمین سندھ کے پہاڑ معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق، سندھ کے پہاڑ تیل، گیس، گرینائیٹ، جپسم، کیلشئیم، چونا، گندھک، نباتات اور نادر قسم کے چرند پرند سے آباد ہیں۔ سندھ کے سب سے طویل پہاڑی سلسلے کو کھیرتھر رینج کہتے ہیں۔

سندھ کے بعض تاریخی پہاڑوں کی تفصیلات درج ذیل ہے۔

گورکھ ہل

کھیر تھر رینج کا سب سے مشہور پہاڑ گورکھ ہے۔ ضلع دادو کے واہی باندھی شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر گورکھ ہل اسٹیشن ہے۔ اس کی بلندی 5688 فٹ ہے۔ گورکھ کے پہاڑ سے لائم اسٹون نکلتا ہے جو عمارت سازی اور راستوں کی مرمت کے لئے بہترین ہے۔ گورکھ کے پہاڑ میں جپسم کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ جپسم سیم و تھو ر والی زمین کی بحالی کے لئے نہایت کارگر ہے۔

رنی کوٹ

ضلع دادو میں سندھ کے قدیم ترین پہاڑوں میں رنی کوٹ کے پہاڑ شمار ہوتے ہیں۔ ان پہاڑوں کی قدامت اربوں سال بتائی جاتی ہے۔ رنی کوٹ کا پتھر لائم اسٹون ہے۔ یہاں پہاڑوں کی چوٹی پر ہزاروں برس قدیم دیوار قائم ہے جو کہ ایک عجوبہ بھی ہے۔ یہ طویل دیوار 29 کلو میٹر تک بنی ہوئی ہے۔ اس قلعہ کے گرد مشہور کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں پتھروں کو تراش کر اس کے نشیب و فراز کے ساتھ ایک مضبوط فصیل تعمیر کی گئی، جسے دیوار سندھ بھی کہا جاتا ہے۔

کھیرتھر نیشنل پارک

کھیرتھر نیشنل پارک ایک قدرتی پارک ہے جس میں فطرت کا حسن نظر آتا ہے۔ اس مقام پر موجود بڑے پہاڑوں میں گیس اور تیل کے ذخائر کے آثار ملے ہیں مگر وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ کھدائی کے کام سے جنگلی حیات کو خطرہ ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان کھیرتھر نیشنل پارک کے دو سینٹر ہیں ایک کرچاٹ سینٹر اور دوسرا کراچی کے قریب کاٹھوڑ میں ہے۔ کرچاٹ سینٹر تھانہ بولا خان کے پاس ہے جہاں جنگلی حیات کو تحفظ دینے کے لئے سرکاری ادارے اور عالمی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

کارونجھر

دنیا کے 17 واں عظیم صحرا تھر پار کر میں واقع کارونجھر پہاڑ موجود ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ پہاڑ ڈھائی سے چار ارب سال قدیم ہے جو کہ 109 پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ کارونجھر میں سب سے اہم چیز گرینائٹ ماربل کی موجودگی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں 26 بلین ٹن کا گرینائٹ موجود ہے جو مختلف رنگوں میں ہے۔ اس حوالے سے حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ گرینائٹ کو مارکیٹ میں لایا جائے تاکہ بیرونی ممالک سے اس کی خریداری نہ کرنی پڑے۔

گنجو ٹکر

حیدرآباد شہر کا تاریخی پہاڑ گنجو ٹکر، شہر کے جنوب میں، لطیف آباد کے قریب ہے۔ اس وقت حیدرآباد کے سائیٹ ایریا میں یہ پہاڑی آتی جس کے ارد گرد انڈسٹری زون بن گیا ہے۔ تاریخ کی کتب میں گنجو ٹکر کے حوالے سے لکھا ہوا ہے کہ اس کی چوٹی سے آس پاس کے تمام شہروں کا نظارہ کیا جاتا تھا۔ یہ پہاڑ چونے کے پتھر کا ہے، جو کیمیائی کام میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گنجو ٹکر پہاڑ، کھیرتھر رینج کے حصے میں شمار ہوتا ہے۔

بڈو جبل

سیہون شریف سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر بڈو نامی بلند و بالا پہاڑ موجود ہے۔ یہ پہاڑ 3000 فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تیل اور گیس کے متعدد ذخائر ریافت ہوئے ہیں۔

کارو جبل

ضلع ٹھٹہ کا سب سے طویل ترین پہاڑی سلسلہ کارو جبل یعنی کالا پہاڑ ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ جنگشاہی سے شمال کی جانب چالیس کلومیٹر کے بعد شروع ہوتا ہے جو ایک طرف گڈاپ اور کاٹھوڑ جاتا ہے تو دوسری طرف جامشورو تک جاتا ہے۔ یہ کوہستان کے لوگوں کا پسندیدہ پہاڑ ہے جس کی اونچائی پر جانے کے شوق میں لمبے لمبے سفر مکمل کرتے ہیں۔ کارو جبل میں پردیسی پرندے جو روس سے سفر کرتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ان کے سواء بھی کئی اقسام کے پرندے ملتے ہیں مگر افسوس ہے کہ یہاں پردوں کا شکار کرنے والوں کو شکار سے نہیں روکا جاتا۔

جھمپیر

ٹھٹہ کے قریب تاریخی شہر جھمپیر واقع ہے۔ جھمپیر کے پہاڑوں میں لائیم اسٹون کی قسم کا پتھر بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئلے کی کان بھی ہے۔ جھمپیر کے پہاڑیوں سے قدرتی چشمے بھی نکلتے ہیں۔ ٹھٹہ کے باقی علاقوں سے جھمپیر بلند اور پر فضا مقام ہے، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو پاکستان کے پہلے ونڈ پاور پروجیکٹ کے لئے چنا گیا، جہاں 680 ایکڑ یعنی تقریباً 275 ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ونڈ فارم سے 50 میگاوٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، جو آغاز ہے۔ یہ ہوا پہ بجلی پیدا کرنے کا سستا ترین پروجیکٹ ہے جو مستقبل میں ملک کے لئے بہت فائدے مند ثابت ہو گا۔

سونڈا

ٹھٹہ کے قریب سندھ کا قدیم شہر سونڈا ہے۔ سونڈا کے پہاڑوں میں چونے کا پتھر ملتا ہے جبکہ تعمیراتی کام کے لئے پتھر بھی یہاں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کراچی اور نیشنل ہائی وے پر اکثر مرمتی کام کے لئے سونڈا کے پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا جاتا ہے۔ بالکل ہلدی کی طرح پیلا، چمکدار پتھر فقط یہاں نظر آتا ہے۔ جب برسات ہوتی ہے یہ پتھر دھل کر اور بھی نکھر جاتا ہے۔ سونڈا میں پہاڑیوں سے مزدور، سخت مشقت کر کے، پتھر توڑ کر، اسے فروخت کرتے ہیں۔

لکی

جامشورو سے سیہون جاتے ہوئے بزرگ لکی شاہ صدر کا مزار آتا ہے۔ مزار سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر بلند ترین پہاڑوں کے درمیان گندھک والے پانی کا چشمہ ملتا ہے۔ یہاں جلدی امراض میں مبتلا لوگ نہانے کے لئے آتے ہیں۔ لکی کے گرم قدرتی چشمے میں گندھک کی وجہ سے پانی کی رنگت بھی ہرے اور نیلے پن والی ہو گئی ہے۔ لکی کے پہاڑوں سے سرخ مٹی بھی ملتی ہے جو شیشہ سازی میں استعمال ہوتی ہے۔

ڈاڑھیارو

سندھی زبان میں ڈاڑھیارو کے معنی داڑھی والا بنتی ہے۔ اس بلند و بالا پہاڑ کا دور سے نظارہ ایسا ہی لگتا ہے جیسا کہ داڑھی والا چہرہ ہو۔ کھیر تھر رینج کی سب سے بلند ترین چوٹی اس پہاڑ کی ہے جس کو ”کتے کی قبر“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس چوٹی پر ایک کتے کی قبر ہے جو اپنے مالک سے وفاداری نبھاتے ہوئے پہاڑ کی بلندی پر پہنچ کر مر گیا تھا۔