کھیرتھر پارک میں پھیلی بیماری سے آئی بیکس مرنے لگے
پاکستان کے دوسرے بڑے اور سندھ کے سب سے بڑے نیشنل پارک کھیر تھر میں جانوروں کے ایک وائرس کے پھیلنے سے گزشتہ 3 ماہ کے دوران درجنوں آئی بیکس مرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
کھیر تھر نیشنل پارک کو اقوام متحدہ کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ یہ پارک جامشورو اور دادو اضلاع کے کوہستانی علاقے میں ساڑھے اکیس سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں کھیر تھر کا پہاڑی سلسلہ بھی شامل ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے سن دو ہزار کے سروے کے مطابق کھیر تھر نیشنل پارک میں پندرہ ہزار کے قریب سندھ آئی بیکس، دس ہزار جنگلی بھیڑیں، پندرہ سو ہرن اور ہزاروں دیگر جانور اور پرندے موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق نے آئی بیکس پی پی آر نامی وبائی بیماری کا شکار ہو رہے ہیں، مقامی بکریوں سے یہ بیماری آئی بیکس میں پھیل رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی افراد نے اس حوالے سے متعدد بار محکمۂ جنگلی حیات سندھ کو آگاہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پی پی آر بیماری کو ’گوٹ طاعون‘ بھی کہا جاتا ہے، اس بیماری سے آنکھوں کی سوجن اور کھانا پینا بند ہونے سے جانور کی موت ہو جاتی ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ یہ بیماری عام طور بھیڑوں اور بکریوں سے جانوروں میں پھیلتی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ کھیرتھر کے علاقے میں 25 ہزار کے قریب آئی بیکس پائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب کنزرویٹر محکمۂ جنگلی حیات سندھ جاوید مہر نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئی بیکس کے مرنے کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بارشوں میں جنگلی جانوروں کی آبادی بڑھتی ہے اور خشک دنوں میں گھٹتی ہے۔
کنزرویٹر محکمۂ جنگلی حیات سندھ جاوید مہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سیزن میں ایک مکھی کے کاٹنے سے بھی آئی بیکس بیمار ہو جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ آئی بیکس کا تعلق بکروں کی کیپرا قسم سے ہے۔ آئی بیکس کی ایک ذیلی انواع نوبیئن آئی بیکس (کیپرا آئی بیکس نوبیانہ) کو 1996 میں ناپیدگی کے خطرے سے دوچار انواع کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق، نوبیئن آئی بیکس کی تعداد 10 ہزار سے بھی کم بالغ جانوروں پر مشتمل ہے اور اس کی دو نسلوں کے دوران کمی کی شرح تقریباً 10 فیصد رہی۔
پاکستان میں نامعلوم تعداد میں پائے جانے والے سائبیریائی آئی بیکس (کیپرا سیبیریکا) کو معدومیت کے کم خطرے کے باعث ذیلی انواع میں شامل کیا جا چکا ہے۔