ہراسانی کی وجہ سے جیکب آباد کی ہندو برادری انتخابی عمل سے نالاں

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ میں بھی اقلیتوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو کہ اثریت کو ہوتے ہیں، سندھ کے شمال میں ضلع جیکب آباد کو ہندو برادری کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، جہاں کے ہندو ووٹرز کسی بھی سیاسی امیدوار کی جیت یا ہار کا سبب بن سکتے ہیں لیکن افسوس ہراسانی، تشدد، دھمکیوں، جھوٹے مقدمات، بھتے اور حملوں کے واقعات کے بعد وہاں کی ہندو برادری انتخابی عمل سے تقریبا دور ہے اور وہ عام انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کرنے سے گریز کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں کاروبار کا ذکر ہو تو اقلیتی برادری کا نام سر فہرست آتا ہے، کیوں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے شہر جہاں اقلیتی برادری خاص کرکے ہندو برادری کے افراد کاروبار میں آگے آگے ہوتے ہیں، وہ کسی بھی شہر کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں ریڑ کی ہڈی کا کردار ادا کر سکتے ہیں، ہندو برادری کو تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں مگر سندھ کے آخری شہر جیکب آباد شہر میں اٹھارہ ہزار اور ضلع بھر میں پچیس ہزار سے زائد ہندو برادری کے افراد رہتے ہیں۔۔
جیکب آباد کی معیشت کا دارومدار بھی کافی حد تک ہندو افراد سے وابستہ ہے، شہر بھر میں ہندو برادری کے کاروبار کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا ہے، بظاہر جیکب آباد کی ہندو برادری بہت خوش نظر آتی ہیں، کیوں کہ یہاں ان کے درجنوں کی تعداد میں مندر اور پوجا گھر تعمیر ہیں، جگہ جگہ ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے، ان کو شہر بھر کے کسی بھی علاقے میں اپنا گھر یا کاروبار کے سلسلے میں پراپرٹی خرید کرنے کا اختیار ہے، وہ بلا خوف رات ہو یا دن گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں. پاکستان کے قیام کے بعد سینکڑوں ہندو فیملیاں جیکب آباد سے بھی انڈیا چلی گئی تھی کچھ یہاں رک گئے تھے، مگر جو انڈیا چلے گئے ان کے نام سے ایک درجن سے زائد گلیاں، سڑکیں اور محلے آج بھی موجود ہیں، انگریز دور کی تعمیر شدہ شہر کے بیچوں بیچ گذرنے والی نہر کی دو پلوں کے نام بھی ہندو افراد کے نام کاسی رام پل اور ٹیو رام پل سے آج تک منسوخ ہیں، ہندو افراد کو بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ ملتا ہے، پیپلز پارٹی کی جانب سے 31 وارڈز میں سے دو وارڈ میمبران کے لئے پارٹی ٹکیٹ دی جاتی ہے، بلدیاتی انتخابات میں ہندو برادری کے افراد بڑھ چڑھ کر ووٹ دینے آتے ہیں، مگر جب ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو ہندو برادری کے افراد گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں۔ پانچ سے دس فیصد ان کے لوگ مختلف سیاستدانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، ووٹ کے ٹرن آؤٹ کی بات کی جائے تو شھر بھر میں دس سے پندرہ فیصد اور ضلع بھر میں فیس فیصد ہندو ووٹ دیتے ہیں۔۔
بظاہر نظر آنے والی آزادی الیکشن کے دنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے، بلدیاتی انتخابات میں اپنے ہندو امیدوار کے لیے ستر فیصد ہندو خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ عام انتخابات میں پانچ فیصد سے بھی کم ہوجاتا ہے، ہزاروں کی تعداد میں رہنے والی ہندو خواتین اور ضعیف افراد انتہائی کم ووٹ دینے باہر نکلتے ہیں، کوئی وقت تھا ہندو برادری کے لوگ الیکشن میں ایک سیاسی کارکنان کی طرح حصہ لیتے تھے، وہ اپنے گھروں، دکانوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر اپنی مرضی کے امیدوار کی پارٹی کے جھنڈے اور اپنی دیواروں پر پوسٹر و بینرز لگایا کرتے تھے، وہ ووٹ دینے مسلمانوں سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ باہر نکلتے تھے، وہ کسی سے خوفزدہ تھے نہ ہی کسی کی دھمکیوں میں آتے تھے، پھر ایک دن آیا پیر 28 جنوری 2002 کو اس وقت کے ہندو پنچائت صدر صدام چند چاولا کو نامعلوم افراد نے بیچ شھر میں گولیاں مار کر قتل کردیا، صدام چند چاولا سابق اسپیکر قومی اسمبلی الاہی بخش سومرو کے انتہائی قریبی ساتھی تھے، وہ الاہی بخش سومرو کی ہر طرح کی مدد کرتے تھے، صدام چند کا قتل سیاسی قتل قرار دے دیا گیا تھا، سابق ایم این اے مرحوم سردار مقیم کھوسو نے اخبار میں دئے گئے بیان میں صدام چند چاولا کا قتل سیاسی قتل ہونے کی تصدیق کی تھی، صدام چند کے قتل کا الزام شہر کی کچھ معروف سیاسی شخصیات کے اوپر عائد کیا گیا تھا، جو مکمل طور پر جھوٹا ثابت ہوا، صدام چند چاولا کے قتل کے بعد ہندو برادری کے افراد خود کو غیر محفوظ اور لاوارث سمجھنے لگے تھے، وہ آج تک بہت زیادہ ڈرے ہوئے رہتے ہیں، جیکب آباد کے ہندوؤں کو بھتہ خوری کا بھی بہت زیادہ سامنا رہا ہے، جیکب آباد کے دو ہندو ڈاکٹروں کو بھی بھتہ نہ دینے پر قتل کردیا گیا تھا، جیکب آباد کے سب سے مشہور دل کے ڈاکٹر امر کھتری کی تشدد زدہ لاش گھر کے صحن میں ملی، مقدمے کے مطابق دوسرے ڈاکٹر پورن مل کو اپنی ملکیت بھتے کی صورت میں عظیم جکھرانی نامی شخص کے نام نہ لکھنے پر قتل اس کو قتل کیا گیا، عظیم جکھرانی گرفتار بھی ہوا اور ورثاء کی رضامندی اور کیس مکمل جھوٹا قرار ہونے کے بعد رہا ہوگیا۔ جیکب آباد کے ہندو 2018؛ تک ہونے والے تمام انتخابات میں بنام حصہ لیتے تھے، 2002 سے آج تک جیکب آباد کے کسی بھی ہندو برادری کے افراد کے گھروں یا دکانوں پر سوائے پیپلز پارٹی کے کسی اور جماعت کا جھنڈا نہیں لہرایا گیا نہ ہی کوئی پوسٹر یا بینر لگایا گیا ہے، 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی امیدوار سابق نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو کو ہندو برادری نے بڑے جوش و جذبے سے ووٹ دیا، انیس سال بعد ہندو برادری کی خواتین، مرد، بوڑھے و جوان بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے اور ووٹ کاسٹ کیا۔ گیارہ ہزار کے قریب ہندو برادری کا ووٹ محمد میاں سومرو کو حاصل ہوا، ہندو برادری کو محمد میاں سومرو سے بہت زیادہ امیدیں تھی وہ بڑے جوش و جذبے سے ووٹ دینے باہر نکلے تھے انہوں نے خوف کی زنجیروں کو توڑ دیا تھا، مگر ان کی ساری امیدیں پانی میں چلی گئی، محمد میاں سومرو بھی ان کی امیدوں پر پورا نہ اترا۔۔
ہندو برادری کو ہمت دینے والے موجودہ پینچائت کے صدر لال چند کو قیمت ادا کرنی پڑی، انہیں مبینہ طور جعلی فرٹیلائزرز فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں لال چند کی جانب سے سابق وفاقی وزیر اعجاز حسین جکھرانی سے مدد طلب کی گئی اور ان کی مداخلت پر ہی لال چند اور اس کا بیٹا آزاد ہوا، تاہم ان کی گرفتاری اور دوران حراست ان پر مبینہ تشدد کے خلاف سابق نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو کی جانب سے دوستوں کی مدد سے سینیٹ میں درخواست دائر کی گئی، اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے آئی جی سندھ کو حکم جاری ہوا جس پر ایس ایس پی کیپٹن (ر) فیصل عبداللہ چاچڑ کو انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا، انکوائری میں ہندو پینچائت کے صدر لال چند سیتلانی کو تشدد کا نشانہ بنانے والے ایس ایچ او جہانگیر مٹھیانی اور ایس ایچ او علی حسن مھر کو رویرٹ کرکے اے ایس آئی بنایا گیا، اے ایس آئی انور شاہ کو سپائی بنا دیا گیا، جبکہ ہیڈ محرر عمر دین بنگلانی اور سپاہی شہزادو قریشی کو نوکری سے برطرف کردیا گیا۔ 
محمد میاں سومرو کے قریبی ساتھی حاجی غلام نبی رند کے مطابق محمد میاں سومرو نے لال چند کی بھرپور مدد کی، اس نے لال چند کو گرفتار کرنے والے تمام افسران سمیت اہلکاروں کو سزا دلائی، محمد میاں سومرو نے ہمشیہ مظلوم کی مدد کی ہے، 2002 میں سابق ہندو پینچائت کے صدر صدام چند کے قتل کے بعد سولہ سال تک ہندو برادری بنام ووٹ دینے باہر نکلتے تھے، وہ خوف میں بہت زیادہ مبتلاء تھے، پھر 2018 کے انتخابات میں ہندو برادری بڑی تعداد میں ووٹ دینے باہر نکلی، لال چند کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد یوں لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی ہندو برادری کے افراد اپنا ووٹ دینے کم ہی نکلیں گے۔ 
رابطہ کرنے پر ہندو پینچائت کے صدر لال چند کا کہنا ہے کہ ماضی میں ووٹ کم کاسٹ ہوا ان کے زمیدار سابق پینچائت کے صدور ہیں، میرے صدر ہوتے ہوئے بہت زیادہ ہندو گھروں سے نکلے اور انہوں نے ووٹ کاسٹ کیا، آئندہ انتخابات میں بھی بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلیں گے اور ووٹ کا حق دا کریں گے، ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔ 
پی ٹی آئی رہنما راجا خان جکھرانی کا کہنا ہے کہ ہندو برادری خوف کی وجہ سے اپنا ووٹ دینے باہر نہیں نکلتے، وہ بہت زیادہ ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ سیاسی دھمکیوں، ہراسانی اور بھتے کی مبینہ دھمکیوں کے بعد جیکب آباد ضلع کی ہندو برادری گزشتہ دو دہائیوں سے خوف کا شکار ہے اور وہ عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے سے گریز کرتی ہے اگرچہ بڑی کوششوں کے بعد 2018 میں ہندو برادری انتخابی عمل کا حصہ بنی لیکن انتخابات کے بعد بھی انہیں دھمکانے اور ڈرانے کا سلسلہ جاری رہا، جس پر اب اس بار ایک بار پھر ہندو برادری کے انتخابی عمل سے دور ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔