سندھ کی خواجہ سرا کمیونٹی کو انتخابی عمل کے دوران بھی تضحیک کا سامنا
انسان کی ایک ایسی جنس جسے انگریزی میں ٹرانسجینڈر، سندھی زبان میں کھدڑا فقیر، اردو میں تیسری جنس یا خواجہ سرا اور عام الفاظ میں ہیجڑا کہا جاتا ہے، یہ لوگ زیادہ تر بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جو ٹولوں کی شکل میں شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کی محفلوں میں ناچ گانے گا کر کچھ پیسے کماکر زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں ۔
کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس معاشرے کی خواتین، مرد اور خواجہ سرا کمیونٹی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کریں اور انتخابی عمل میں فعال کردار ادا کریں۔ قومی فیصلہ سازی کے عمل کے تمام مراحل میں مرد و خواتین کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا کمیونٹی کی مساوی شرکت، سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی میں غیر امتیازی سلوک ہی افضل انسانی حقوق ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں نے جس دن سے اس حقیقت کو قبول کیا تو وہ اسی دن سے اپنی سیاسی، معاشی اور معاشرتی ترقی میں آگے بڑھے ہیں۔ ملک کی دیگر کمیونٹیز کی طرح خواجہ سرا کمیونٹی بھی ایک اہم جزو ہے، ان کو بھی آئین پاکستان نے تمام وہ حقوق دیئے جو دیگر عام لوگوں کے لئے ہیں، جس میں ووٹ دینے کا حق بھی شامل ہے۔
سندھ میں خواجہ سرا کمیونٹی کو عام انتخابات میں شدید تحفظات ہیں، ٹھٹھہ اور سجاول اضلاع میں ایک سو دس کے قریب خواجہ سرا کمیونٹی رہائش پذیر ہیں جبکہ سندھ بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 2023 کی مردم شماری کے مطابق تین ہزار آٹھ سو اکہتر ہے۔ 2017 میں ان کی تعداد زیادہ پانچ ہزار نو سو چون تھی۔
اس مردم شماری میں ان کی تعداد میں پینتیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگر انتخابات کی بات کی جائے تو سندھ کے نئے بلدیاتی نظام میں ٹائون کمیٹی سے لے کر میٹروپولیٹن کارپوریشن تک خواجہ سرا افراد کے لیے نشستیں مخصوص کی گئی ہیں جن پر ممبر کا چنائو براہِ راست منتخب ہونے والے ممبران کے تعداد کی مناسبت سے ہوتا ہے بلدیاتی نظام میں اس کمیونٹی کی مخصوص نشست مختص کرنا ایک بہترین عمل ہے جسے ہر ایک نے بہت سراہا ہے۔
عام انتخابات میں ووٹ دینے یا انتخابی عمل میں دلچسپی لینے کے حوالے سے سجاول اور ٹھٹھہ ضلع میں رہائش پذیر خواجہ سرا گلابی نے بتایا کے ہمیں شناختی کارڈ بنوانے میں بہت دشواری پیش آتی ہے ہمارے والدین ہمیں اپنا نہیں سمجھتے ہمیں گھر سے نکال دیتے ہیں اس لیئے ہمارے پاس اپنے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہوتی اس لیئے ہم شناختی کارڈ بنوانے ہی نہیں جاتے اور سرکاری دفاتر میں بھی ہمیں تفریحی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ہمارا کوئی کام نہیں کرتا اس لئے شناختی کارڈ نہیں بنا سکتے اور نہ ہی ووٹ دے سکتے ہیں ۔
نائلہ نے بتایا کے ہمیں ووٹ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ جو امیدوار ووٹ لیکر جاتے ہیں وہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ہمیں پوچھتے ہی نہیں ہمارے مسائل حل نہیں جوں کے توں ہیں۔ اکثر امیدوار تو ووٹ لینے کے لئے ہمارے پاس اتے ہی نہیں ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے ۔
سیما نے بتایا کہ ہمارابھی ووٹ دینے کے لئے بہت دل کرتا ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ اُمیدواروں کو ووٹ دیں ان کی کامیابی کے لئے ورک بھی کریں مگر ہمارے شناختی کارڈ نہ بننے کی وجہ سے ہمارا ووٹ داخل نہیں ہوتا تعلیم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس کوئی ڈیٹا وغیرہ نہیں نہ ہی ہماری کوئی مالکی کرتا ہے۔ کچھ کے پاس اگر شناختی کارڈ ہے تو ووٹ داخل نہیں ایسے کافی معاملات ہیں جس کے بدولت ہم ووٹ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لئے تو اس وقت شناختی کارڈ بنوانا مشکل ہو گیا ہے نادرا کے دفتر جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں والدین کو لیکر آؤ ہم کیا کریں والدین کو لیکر آنا دور کی بات ہے وہ تو ہمیں اپنا سمجھتے ہی نہیں اور نا ہی ہماری مالکی کرتے ہیں سرکاری دفاتر میں سرٹیفکیٹ وغیرہ کے لئے جاتے ہیں تو وہاں ریسپانس نہیں ملتا دھکے کھانے کے بعد کارڈ بنوانے سے ہی ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔
اس سلسلے میں نادرا ٹھٹھہ کے ملازمین کا کہنا ہے کہ پہلے خواجہ سراوں کے شناختی کارڈ بنانے کے مشکل مراحل تھے اب اس میں آسانی ہوگئی ہے اگر کوئی والدین انھیں نہیں اپناتے تو اس کے گرو کی تصدیق اور محمکہ سوشل ویلفیئر کی تصدیقی سرٹیفیکیٹ پیش کرنے پر انہیں شناختی کارڈ بنا کر دیتے ہیں۔
ثمینہ گڈی کا کہنا ہے کہ ووٹ دینا تو دور کی بات ہے ہمارے کمیونٹی میں کچھ لکھے پڑھے لوگ بھی ان کے ووٹ بھی اندراج ہے مگر وہ بھی ووٹ نہیں کاسٹ کرتے کیوں کے ہم جس کو بھی ووٹ دیتے تھے انھوں نے کبھی بھلائی اور ترقی کے لئے کام نہیں کیا ووٹ لینے کے بعد کبھی ہمیں پوچھا بھی کے ہم کس حال میں ہے اگر کمیونٹی کا کوئی امیدوار ہو تو ہم اس کو ضرور ووٹ دینگے اور دلوائیں گے بھی کیوں ان خواجہ سراوں کے مسائل کا انہیں پتا ہوگا کے ہم کس حال میں ہوتےہیں ہمارے مسائل کیا ہیں اور وہ ہی حل کرنے کے کوشش کرے گا ۔
سیاسی جماعتیں بھی ہمیں اس نظر سے نہیں دیکھتیں جو دیگر کمیونٹی کے ساتھ ان رویے ہوتے ہیں ہم بھی چاہتے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین ۔اقلیتی کی مخصوص سیٹوں کی طرح خواجہ سرا کمیونٹی کی بھی مخصوص نشست رکھی جائے تاکہ ہمارے حقوق کے حصول اور تحفظ کی فراہمی یقینی ہو سکے۔
میونسپل کمیٹی ٹھٹھہ کی خواجہ سرا کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے خواجہ سرا کمیونٹی کے گرو حاجی بابلی نے کہا کہ میں کونسلر کی حیثیت سے منتخب ہوا ہوں اور میونسپل کا اجلاس ہوتا ہے اس میں شرکت بھی کرتا ہوں مگر ہمارے کمیونٹی کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں بس یہ کہا جاتا ہے ابھی نگران حکومت ہے جب عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت آئے تو تمام مسائل حل کرینگے ابھی تو فنڈز بھی نہیں ہے ابھی تک تو مجھے کونسلر کی جو تنخواہ ہے وہ بھی نہیں مل رہی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کے خواجہ سراوں کو تنگ دلی سے نہیں عام انسان کی برتاؤ کیا جائے ہم بھی انسان ہیں ہمارے بھی حقوق ہیں عام لوگوں کی طرح ہمیں تمام شعبوں میں اپنا حصہ دینے کا کام کیا جائے۔
ٹھٹھہ اور سجاول میں خواجہ سراؤں کی سماجی بھلائی کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم ہیلپنگ ہینڈس کے سی ای او اور سماجی شخصیت وزیر احمد قریشی نے بتایا کے میں نے خواجہ سراوں پر کورونا کے دوران کام شروع کیا اس وقت ہر کوئی پریشان تھا دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے امداد مل رہی تھی مگر خواجہ سرا کمیونٹی کو کوئی برداشت نہیں کر رہا تھا ان پر کسی ادارے کی نظر نہیں گئی زیادہ تر خواجہ سرا بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں اور گھر گھر جارہے تھے مگر کرونا کے خوف سے انہیں کوئی برداشت نہیں کر رہا تھا مجھے پتا چلا میں ٹھٹھہ اور سجاول اضلاع کی سروے کرکے ایک سو سے خواجہ سراوں کو راشن اور دیگر امداد پہنچائی۔ سروے کے دوراں یہ پتا چلا کے خواجہ سراوں کی اکثریت کے پاس نہ شناختی کارڈ ہے نہ کوئی اور ڈیٹا اور نہ ہی ان کے اپنے والدین یا رشتے دار ان کو اپنا سمجھتے ہیں ان کو گھر نکال گرو کے پاس چھوڑ آتے ہیں ،جس کے بعد یہ سب کچھ اپنے گرو کو سمجھتے ہیں جس کے پاس کئی سالوں سے زندگی کے دن گراز رہے ہیں، ووٹ کاسٹ کرنے کی بات کی جائے تو،ان لوگوں کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں ہیں تو یہ کیسے ووٹ دے سکتے ہیں اسی لیئے ان کی ووٹ یا انتخابات کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور یہ ہمیشہ اپنے قیمتی ووٹ سے محروم ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ بھی انسان ہے ان کو بھی جینے کا حق ہونا چاہیئے پاکستان کے آئین کے مطابق انہیں تمام بنیادی حقوق فراہم کیئے جائیں جو دیگر عام لوگوں کے ہوتے ہیں سب سے پہلے کم سے کم ان کا شناختی کارڈ بنانے کے لئے نادرا کوئی ایسے اقدامات کریں جس سے ان لوگوں کے شناختی کارڈ آسانی سے بن سکیں۔
الیکشن کمیشن ٹھٹھہ کے عہدیدار محمد ذیشان کا کہنا تھا کے ٹھٹھہ میں صرف ایک خواجہ سرا کا ووٹ داخل ہے جس کا نام حاجی بابلی جو ٹھٹھہ کا رہائشی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کے ہمارے پاس ووٹ کی اندراج کے لئے خواجہ سراوں کی فقط ایک درخواست آئی تھی جس کا ہم نے ووٹ داخل کر لیا اور بھی درخواستیں آئی گی تو ہم ان کے بھی ووٹ داخل کر دینگے ۔ہم تین یا چار دن میں درخواست گزار چاہے خواجہ سرا ہو یا کوئی اور کاغذات کی تصدیق کا بعد ووٹ داخل کر دیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن سندھ کے نائب صدر منظور خشک نے کہا کے میں نے سنا ہے صرف ایک ووٹ داخل ہے جبکہ ضلع بھر میں بہت سارے خواجہ سرا ہیں ان سے انصاف ہونا چاہیئے ان کے ووٹ داخل ہونا چاہیئے مسلم لیگ ن کی حکومت آئے تو ہم ان کی مدد کرینگے ظاہر ہے یہ بھی ہمارے جیسے انسان معاشرے میں ان کی عزت ہونی چاہیئے اس لیئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی ان مخصوص نشست مختص کرنے کے لئے کام کرینگے۔
جماعت اسلامی کے ضلعی رہنما محمد علی خٹک خواجہ سرا بھی ہمارے سماج کا ایک اہم حصہ ہے جیسے مرد اور عورتیں ہیں ویسے یہ بھی ہیں ان کو اللہ نے پیدا کیا ہےان کے بھی حقوق ہیں ان کو حقوق میں انتخابات میں کھڑا ہونا ووٹ ڈالنا بھی ہیں جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات میں ملک بھر سے ان کو مخصوص نشستیں بھی دی ہیں ٹھٹھہ میں ان کی تعداد بہت ہیں اگر ان کی رجسٹریشن نہیں ہوئی یا ان کی مدد نہیں گئی ہے تو یہ ہم سب کی کمی خامی ہے ہم سب کو ان کی مدد کرنی چاہیئے جتنے بھی خواجہ سرا یہاں ہے ان قومی نظام اور انتخابات کے طریقے کار میں لانے کے لئے مدد کرینگے ان میں بہت صلاحیتیں موجود ہیں مگر ہم نے ان سماج کے اندر ایک مذاق بنایا گیا ہے ان کے بھی احساسات ہے ان کو پلیٹ فارم دینا چاہیئے اپنی صلاحیتیں دکھانے کے لئے ایوانوں میں ان کی مخصوص نشستیں مختص کی جائے،
پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماوں کا کہنا تھا پیپلز پارٹی عوامی حقوق کی بات کرتی ہے یہ بھی عوام کا حصہ ان کے ووٹ داخل ہونے کے لئے اولین ترجیحات پر ہم کام کر رہے ہیں ہم بلدیاتی انتخابات میں ٹائون کمیٹی پر خواجہ کی مخصوص نشست پر منتخب کرایا ہے ان کے ووٹوں کے اندراج کے لئے کام کیا ہے اور بھی کام کر رہے ہیں۔