سندھ کی تعلیم، معیشت، صحت، زراعت تباہ، اقلیتوں و خواتین کے حقوق غصب: سانا کانفرنس

سندھی ایسوسی ایشن آف ناتھ امریکا(سانا) کی جانب سے دارالحکومت کراچی میں منعقد ایک روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین و مقررین نے کہا کہ سندھ کی معیشت، تعلیم، صحت اور زراعت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے جب کہ آج بھی اقلیتوں سمیت خواتین کے حقوق بڑے پیمانے پر پامال کیے جانے کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے۔

آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ایک روزہ کانفرنس سے نگران وزیر اطلاعات سید احمد شاہ، پرویز ہود بھائی، قیصر بنگالی، جامی چانڈیو، نصیر میمن، عائشہ دھاریجو، شیریں ناریجو، نزہت شیریں، شازیہ نظامانی، ایڈوکیٹ روبینہ چانڈیو اور کندھ کوٹ میں قتل کیے گئے پروفیسر اجمل ساوند کے بھائی ڈاکٹر طارق ساوند سمیت دیگر نے خطاب کیا۔

ایک روزہ کانفرنس کے دوران ان طلبہ کو بھی پیش کیا گیا جنہوں نے آج تک سانا کی اسکالرشپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اچھی ملازمتیں بھی حاصل کیں۔

کانفرنس کے دوران سندھ مسلم (ایس ایم) لا کالج کے 6 طلبہ کو اسکالرشپ سرٹیفکیٹس بھی دیے گئے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نصیر میمن نے ہوشربا انکشاف کیا کہ عالمی اداروں اور سندھ حکومت کی اپنی رپورٹس کے مطابق صوبے میں آنے والے 2022 کے سیلاب سے قبل 80 فیصد گھرانے کچے تھے، جنہیں جھونپڑیاں کہا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس صوبے میں سیلاب سے قبل اتنی بڑی تباہی ہو، وہاں سیلاب کے بعد کیا بچا ہوگا، اس کا اندازہ خود لگالیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سندھ کے بیشتر اضلاع کا زیر زمین پانی خراب ہوچکا ہے، جس وجہ سے بڑے پیمانے پر صوبۓ میں بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پرویز ہود بھائی نے کہا کہ سندھ کے لوگوں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں اور یہی ان کی شکست ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواب دیکھنے کا عمل ہی دراصل قوموں کو اپنی جدوجہد مزید تیز کرنے پر اکساتا ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قیصر بنگالی نے کہا کہ گزشتہ 75 سال میں حکمران سندھ کو پینے کا صاف پانی اور خوراک بھی مہیا نہیں کر سکے۔

کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے جامی چانڈیو، عائشہ دھاریجو، شیرین ناریجو، شازیہ نظامانی اور دیگر مقررین نے کہا کہ سندھ میں آج بھی خواتین اور اقلیتوں کے حقائق غصب کیے جا رہے ہیں، آج بھی خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرکے انہیں غسل کے بغیر دفن کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈوکیٹ کلپنا دیوی نے کہا کہ اگرچہ سندھ کا شعور آج بھی اقلیتوں کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن شعور بھی اس وقت اٹھتا ہے جب ہندئوں کے دھرم شالا کو جلایا جا چکا ہوتا ہے یا لڑکی اغوا کرکے اسے مسلمان بنادیا جا چکا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے بچپن میں انہیں مسلمان پڑوسی عید پر کپڑے لے کر دیتے تھے اور جب انہیں بھوک لگتی تھیں تو وہ پڑوسیوں کے گھر کھانا کھانے جاتی تھیں لیکن آج کی سندھ تبدیل ہوچکی ہے، اب ایسا نہیں ہوتا۔

کانفرنس کے دوران ماہرین اور مقررین نے کہا کہ اس وقت سندھ کی معیشت اور زراعت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے، کسانوں کو پانی اور نئے بیج دستیاب نہیں جب کہ سندھ بھر کے اسکول ملبے کے ڈھانچے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

مقررین کے مطابق سندھ کی صحت ختم ہوچکی ہے، اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن ادویات اور ڈاکٹرز دستیاب نہیں۔

مقررین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ 75 سال میں مالا مال سندھ کے لوگوں کو بنیادی سہولیات یعنی پینے کا صاف پانی، غذا، گھر، صحت اور تعلیم جیسی سہولیات ہی میسر نہیں کی جا سکیں۔