کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سندھ میں سخت گرم موسم اور سیلابوں کا ایک سبب قرار

0
IMG-20250623-WA0073

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر مقامی سطح پر انتہائی موسم جیسے کہ ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسے واقعات کا سبب بننے والے بڑے عوامل میں شامل ہیں۔

چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے پیر کو ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ماحولیاتی تبدیلی اور آفات سے نمٹنے کی صلاحیت پر کانفرنس سے خطاب کے دوران تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر تخفیف اور موافقت کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ کوئلے پر مبنی بجلی گھر مقامی سطح پر انتہائی موسم جیسے کہ ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسے واقعات کو جنم دینے اور بڑھانے والے بڑے عوامل میں شامل ہیں، جن کی شدت اور تعداد آئندہ برسوں میں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

اس ایونٹ میں حکومت، تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور ترقیاتی شعبے کے کلیدی نمائندوں نے شرکت کی۔

چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے اپنی پریزنٹیشن ’ انتہائی کاربن والے منظرنامے میں سندھ میں ممکنہ ماحولیاتی شدت’ کے عنوان سے پیش کی، انہوں نے بتایا کہ اگرچہ تھرپارکر سمیت دیگر کوئلے پر مبنی منصوبے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں گے، تاہم یہ ترقی کسی قیمت کے بغیر نہیں آئے گی۔’

انہوں نے خبردار کیا،’ اس کی قیمت ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کی صورت میں چکانی پڑے گی، جس سے ہیٹ ویوز، سیلاب، پہاڑی علاقوں میں اچانک آنے والے سیلاب جیسے شدید موسمی واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ’

انہوں نے کہا کہ سندھ میں حال ہی میں نصب ہونے والے کوئلے پر مبنی بجلی کے منصوبے فضا میں بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسز کے اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا،’ سندھ کے مرکزی علاقوں میں ہیٹ ویوز کے دنوں کی تعداد میں 54 ایام تک کا اضافہ ہوا ہے، جس میں کراچی، مٹھی اور ننگرپارکر بھی شامل ہیں، جہاں ایک اونچے درجے کے اخراج والے منظرنامے میں ہیٹ ویوز کے دنوں میں اضافی 35-40 دن شامل ہو رہے ہیں۔’

امیر حیدر لغاری کے مطابق، سمندری علاقوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شدت بڑھنے سے ساحلی علاقوں میں اس کی مقدار مزید بڑھ جائے گی، جس سے ہیٹ ویوز کے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا،’ مون سون کی ہوائیں سمندر سے اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ اٹھا کر ساحلی علاقوں کی طرف لے جا سکتی ہیں، جبکہ بارش کے متعلق مستقبل کی پیش گوئیاں بتاتی ہیں کہ کم دنوں میں زیادہ بارش ہوگی، یعنی بارش کی شدت میں اضافہ ہوگا۔’

کانفرنس کی ایک اہم بات ایک تحقیقی مطالعے کا اجرا تھا جس کا عنوان تھا،’پاکستان کے حساس علاقوں میں موسمیاتی جدید زراعت بطور آفات سے بچاؤ کی حکمت عملی: ایک کثیر اضلاع کا تقابلی تجزیہ‘

معروف ماہرینِ تعلیم نے یہ مطالعہ پیش کیا، جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح موسمیاتی جدید زرعی طریقوں کو اپنا کر آفات کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے، خوراک کے تحفظ کو بڑھایا جا سکتا ہے اور دیہی علاقوں میں پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

کانفرنس میں کئی تکنیکی سیشنز بھی شامل تھے، جن میں سندھ کے علاقائی خطرات، درجہ حرارت میں اضافہ، پانی کی قلت، اور بے ترتیب بارش جیسے مسائل پر روشنی ڈالی گئی، اور ان کے سماجی و معاشی اثرات پر قیمتی بصیرت فراہم کی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے