اطالوی سیاحوں کا فیض محل کا دورہ
تاریخی عمارتوں اور خوبصورت نظاروں سے مالا مال یورپی ملک اٹلی کے سیاحوں کے وفد نے ضلع خیرپور میں موجود تاریخی فیض محل کا دورہ کیا، جسے دیکھتے ہی وہ دنگ رہ گئے۔
اطالوی سیاح کچھ دن قبل سندھ کے دورے پر آئے تھے اور انہوں نے مختلف تاریخی اور سیاحتی مقامات دیکھے، انہوں نے فیض محل سے قبل کوٹ ڈیجی کا دورہ بھی کیا۔
کوٹ ڈیجی کی طرح فیض محل کی بھی ایک منفرد تاریخ اور اہمیت رہی ہے، یہ تاریخی محل خیرپور کی خوبصورتی اور ماضی کی اس کی آزاد ریاست ہونے کی نشانی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل خیرپور نوابی ریاست تھی اور اسی ریاست کے حکمران نے ہی فیض محل کو تعمیر کروایا تھا۔
فَیض محل سکھر ڈویژن کے ضلع خیرپور میں واقع تاریخی محل ہے۔ اسے میر ٹالپر حکمران فیض محمد نے 1798 میں تعمیر کرایا تھا جو ریاست خیرپور کے بادشاہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ محل اس وقت بادشاہوں کے شاہی محل احاطے کے لیے خود مختار دربار کے طور پر کام کرنے والی ایک اہم عمارت تھی، اس میں درباریوں کے لیے 16 ویٹنگ رومز کے ساتھ ساتھ دربار اور ڈائننگ ہالز کے ساتھ شاہی مہمانوں کے لیے مہمان خانے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاہی ہاتھی اور گھوڑوں کے اصطبل کے لیے ہاتھی خانہ بھی موجود تھا، جہاں اب باغ ہے۔
یہ محل 2 منزلہ عمارت ہے۔ یہ عمارت فیض محمد ٹالپر نے بڑی محنت اور محبت سے تیار کروائی، وہ 1894 سے 1909 تک خیرپور ریاست کے حکمران رہے تھے۔ اس محل کا ایک اور نام ’لکھی محل‘ بھی ہے۔ فیض محل کی تعمیر میں لال اینٹوں کے ساتھ جودھ پور کے پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
فیض محل سے ایک رومانوی داستان بھی جڑی ہے جس کے بغیر فیض محل کا ذکر ادھورا سا لگتا ہے۔ وہ داستان اسی خاندان کے چشم و چراغ میر علی نواز ناز اور بالی کی ہے، بالی لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک گلوکارہ تھیں۔ میر علی نواز ناز نے بالی کے عشق میں گرفتار ہوکر ان سے شادی کی مگر وہ شادی طویل عرصے چل نہ سکی۔ آج بھی بالی کے لیے تعمیر کیا گیا دلشاد محل خیرپور میں دیکھا جاسکتا ہے جو میر علی نواز ناز کی جانب سے تعمیر کروایا گیا تھا۔
آج اس دلکش عمارت میں ٹالپر خاندان کے نوابوں کی پہلے جیسی زندگی تو نہیں رہی ہے مگر فیض محل ہمیں آج بھی اس دور کی یاد دلاتا ہے جب یہ عمارت ایک ریاست کی شان و شوکت کی علامت تھی۔