سندھ کیا پڑھ رہا ہے؟
تحریر ۔۔۔۔۔۔ محمود شام
میں نے یہ جاننے کا ارادہ کیا ہے کہ سندھ کیا پڑھ رہا ہے۔ سب سے پہلے میں نے سندھ میں اپنے کچھ صاحب مطالعہ احباب سے جانا کہ سندھ کیا پڑھ رہا ہے۔ سندھ کے شہروں قصبوں کے ذہنوں میں کیا فصلیں پک رہی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں کیا کاشت ہورہا ہے۔
پاکستان کے قیام میں بھی سندھ کا بنیادی کردار تھا۔ سائیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرار داد پیش کی تھی۔ پھر سندھ نے جس طرح ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں کے لئے دل اور گھروں کے دروازے کھولے ۔ اسکے بعد ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق کے سنگدلانہ آمرانہ ادوار میں سندھ ہی جمہوریت کی بحالی کیلئے پیش پیش رہا ہے ۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے نوجوانوں نے بھی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔
اب حرف مطبوعہ کے ساتھ ساتھ آن لائن کا بھی دَور ہے۔ سندھ کے طول و عرض میں نوجوان، نو عمر، بزرگ، خواتین،بیٹے بیٹیاں سب اپنے ذہنوں کو نئے پرانے لکھنے والوں کی کہانیوں ناولوں، خود نوشتوں سے جلا دے رہے ہیں۔ مطالعے اور مکالمے کی حیرت انگیز داستانیں سننے کو مل رہی ہیں۔ سندھی کے ساتھ ساتھ اُردو، انگریزی میں بھی مزاحمتی ادب پڑھا جارہا ہے۔ شاہ لطیف نے سندھ کی ہر نسل کو زندگی سے پیار سکھایا ہے۔ ہر سُر میں جینے کی امنگ دی ہے۔
سب احباب نے کہا ’شاہ جو رسالو‘ کا ایک نہ ایک نسخہ ہر سندھی گھر میں احترام سے موجود ہے۔ اکثریت ہفتے میں ایک بار اس کے کسی سُر کو ضرور پڑھتی بھی ہے۔
ان دنوں ناول اور خود نوشت کامطالعہ ہر عمر کے مردوں اور خواتین میں سر فہرست ہے۔ شیخ ایاز کی نثر اور شاعری تو نسل در نسل دلوں میں اتر رہی ہے۔ لچھمن کومل بھاٹیہ کی ’بہی کھاتے کا پنّا‘ چار جلدوں میں چھپی اور چھاگئی۔ کئی ایڈیشن بک چکے ہیں۔ قاضی خادم، شمس جعفرانی، فہمیدہ حسین، گل محمد عمرانی کی آپ بیتیاں بھی بہت مقبول ہیں طارق عالم ابڑو کا ناول جو سوانحی ہے’ ’وہ منظر جو رہ گئے‘‘ ۔ 80کی دہائی سے چھپ رہا ہے اور پڑھا جارہا ہے۔ 30 سے زیادہ ایڈیشن فروخت ہوچکے ہیں۔
امر جلیل کی تحریریں تو اُردو میں بھی بہت مقبول ہیں۔ ان کا ناول ’بالآخر گونگا بول اٹھا‘ نے بھی ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ آغا سلیم، غلام نبی مغل، علی بابا، زیب سندھی کے ناول لوگوں کوازبر ہیں۔ زیب سندھی کا ’سیتا زینب‘ کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار سیال کی کتابیں بچوں میں اور شاعری کے مجموعے بڑوں میں بہت مقبول ہیں۔ شیخ ایاز کی ’ساہیوال جیل جی ڈائری‘۔اختربلوچ کی’قید یانی کی ڈائری‘۔ نئی پرانی نسل کا ولولہ بڑھاتی ہیں۔ نور الہدیٰ شاہ کے افسانے، ناول، ڈرامے نوجوان اور بزرگوں دونوں کی پسند ہیں۔
سندھی کے قدیم اخبار ’عبرت‘ کا پندرہ روزہ عبرت میگزین اور ماہانہ ہزار داستان ڈائجسٹ اب بھی پڑھے جارہے ہیں۔ نوجوانوں کو ادب اورسماجیات کی طرف ’ایازجو میلو‘ نے بڑی کامیابی سے راغب کیا ہے۔ اس کیلئے امر سندھو اور عرفانہ ملاح کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یہ میلہ ہر سال پانچ چھ روز سجا رہتا ہے۔ ان دونوں خواتین نے سندھ رائٹرز کیفے کا بھی اہتمام کر رکھا ہے۔ جس کا نام ’و تایو جی اطاق‘ بھی ہے۔ آن لائن بھی سندھ کا نوجوان، ذہن بہت سرگرم ہے۔ ’سندھ سلامت‘ ویب سائٹ پر بھی اہم کتا بیں پڑھی جارہی ہیں۔ سندھی ادبی بورڈ، سندھی لینگویج اتھارٹی اور سندھ کے محکمہ ثقافت نے بھی سینکڑوں کتابیں مفت آن لائن فراہم کر رکھی ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی بھی حرف مطبوعہ کیلئے بہت فعال ہیں۔
مجھے سندھ میں پڑھے جانے کے رجحان پر جتنے حوصلہ بڑھانے والے اعداد و شُمار سننے کو ملے ہیں۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ سفّاکی، وڈیرہ شاہی، مافیاز، کچھ وقت کیلئے ہیں۔ آج کی نسل شاہ لطیف کی فکر سے بھی سرشار ہے اور نئے دَور کی روشنی سے بھی منور ۔ ابھی میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ ایک دو کالم اور بھی سندھ پر آئیں گے۔کراچی پر لکھی گئی کتابوں پر بھی بات ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر روزنامہ جنگ میں شائع ہوا