جبری مذہب تبدیلی کے خلاف سندھ کی اقلیتی آبادی کی تنہا جنگ

ہم ہندو ہیں، ہمیں گولی ماردو لیکن ہمارے بچوں کو ہم سے زبردستی نہ چھینو۔ ہمارا کوئی اور مطالبہ نہیں ہے، ہم صرف اپنے بچوں کی حفاظت اور ان کی زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔

یہ دل دہلا دینے والے الفاظ امری مہاراج کے ہیں، جن کی کم سن بیٹی 14 سالہ چندا مہاراج کو مبینہ طور اغوا کرکے ان کا جبری طور پر مذہب تبدیل کرواکر ان کی شادی مسلمان لڑکے سے ہونے کا دعویٰ کیا گی اتھا۔

چندا کے علاوہ امری اپنی دو دیگر بیٹیوں 17 سالہ سونا اور 16 سال کی بھگوتی کی خیریت کے بارے میں یکساں طور پر فکر مند ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ انہیں بھی زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

چندا مہاراج کو فروری 2023 میں اپنے خاندان اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے پولیس کے خلاف مسلسل احتجاج کے بعد حیدرآباد کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا چونکہ وہ نابالغ تھیں اور صوبائی قانون 18 سال سے پہلے کی شادی پر پابندی لگاتا ہے، اس لیے عدالت نے اسے محفوظ گھر بھیج دیا لیکن اس کے بعد سے چندا کے خاندان نے اس کا پتا کھو دیا۔

امری کا خاندان دلت ہے، جو ہندوئوں کی سب سے نچلی ذات ہے، جنہیں اکثر تعلیم، روزگار کے مواقع اور بنیادی ضروریات تک رسائی کے معاملے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے دلت خاندانوں اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے لیے ان کی بیٹیوں کو اغوا کے بعد ان کا جبری مذہب تبدیل کرنے کا خطرہ رہتا ہے۔

پاکستان میں 96 فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے، آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم، کسی بھی قسم کی مذہبی تبدیلی کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہے۔

پاکستان کا صوبہ سندھ ہندوؤں کی اکثریت کا گھر ہے، جنہیں ایک مقامی گروہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ صحرائے تھر کے اندر دو اضلاع عمر کوٹ اور تھرپارکر میں ہندوؤں کی نمایاں آبادی ہے، بالترتیب اضلاع کا تقریباً 54 فیصد اور 43 فیصد حصہ ہندوؤں پر مشتمل ہے۔

سندھ میں ہندوؤں سمیت دیگر غیر مسلم لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی میں نمایاں اور سرگرم رہنے والی مذہبی شخصیات میں ضلع گھوٹکی کی بھرچونڈی مزار کے میاں عبدالحق ایک ہیں، جنہیں میاں مٹھو کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ان پر گزشتہ سال ‘انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ‘ کے الزام میں برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

جب کہ دوسری شخصیت پیر ایوب جان سرہندی ہیں، ان کے علاوہ بھی دیگر متعدد غیر معروف علما بھی جبری مذہب تبدیلی کے واقعات میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

پیر ایوب جان سرہندی نے جبری مذہب تبدیلی کے الزامات پر بات کرتے ہوئے اسلام کے فروغ اور اسے برقرار رکھنے کے لیے اپنے خاندان کے عزم پر زور دیا۔

انہوں نے ہندوؤں کو نشانہ بنانے کے الزامات کی سختی سے تردید کی اور اسلام کی ہم آہنگی کو یقنین بنانے پر زور دیا۔

ان کا ماننا ہے کہ تبدیلی مذہب اسلام سے متاثر ہوکر کی جاتی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والے حقیقی طور پر اسلام سے متاثر ہوتے ہیں۔

سندھ میں مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر ہندوؤں نے حالیہ برسوں میں جبری مذہب تبدیلی کے خطرے کے بارے میں بڑھتے ہوئے خوف کو محسوس کیا ہے۔

اگرچہ یہ رجحان پاکستان میں کئی سالوں سے موجود ہے لیکن افغان جنگ کے دوران پاکستان کی جہادی لہر کے ابھرنے کے ساتھ ہی اس میں نمایاں اضافہ ہوا، تب سے جبری مذہب کے تبدیلی کے واقعات میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

جبزی مذہب تبدیلی کے باعث بہت سے سندھ کے ہندوؤں نے محفوظ ماحول کی تلاش کے لیے ہندوستان ہجرت کرنے کا انتخاب کیا ہے، دارالحکومت کراچی کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک لیاری سے تعلق رکھنے والے موہن لال نے بتایا کہ جبری تبدیلی مذہب ایک حیران کن حد تک پہنچ گیا ہے اور اس سے بچنے کے لیے پچھلے 20-25 سالوں میں لیاری سے تقریباً 200 خاندان سندھ چھوڑ کر بھارت کی ریاست گجرات میں جاکر آباد ہوچکے ہیں۔

متعدد تحقیقات اور اندازوں کے مطابق 2010 تک پاکستان میں ہر ماہ تقریبا 25 غیر مسلم اور خصوصی طور پر ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

https://twitter.com/shaukatkorai/status/1671776765738631168?t=xQVt4ynE56ww_CXIxPWJKw&s=19

 

اتنی خطرناک صورت حال کے باوجود افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں مذہبی تبدیلیوں کو روکنے یا انہیں ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے۔ دسمبر 2016 میں سندھ کی صوبائی اسمبلی نے فوجداری قانون (اقلیتوں کا تحفظ) ایکٹ 2015 منظور کیا تھا۔

یہ جبری مذہب تبدیل کرنے پر پابندی لگاتا ہے اور بچوں کو اس وقت تک مذہب تبدیل کرنے سے روکتا ہے جب تک کہ وہ بلوغت کی عمر یعنی 18 سال کی عمر تک نہ پہنچ جائیں۔

پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس قانون سازی کی مخالفت کی، خاص طور پر دفعہ 4(1)، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ اسلامی اصولوں سے متصادم ہے۔ گورنر سندھ نے اس کے بعد اپنی منظوری پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ایکٹ کو دوبارہ غور کے لیے اسمبلی کو واپس کر دیا، مسلم مذہبی جماعتیں اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں جبکہ ہندووں سمیت دیگر اقلیتیں اس کی حمایت کر رہی ہیں۔

مذکورہ قانون کی مسلمانوں کی مخالفت اس حقیقت کے باوجود ہے کہ پاکستان نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) پر دستخط کر رکھے ہیں۔

سال 2019 میں جب عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے، انہوں نے جبری تبدیلی مذہب کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی، تاہم قانون سازی میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ کمیٹی کے ایک رکن سینیٹر لال ملہی نے بعد ازاں انکشاف کیا کہ کمیٹی کے مسلمان ارکان حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر انتہا پسندوں کے دباؤ کی وجہ سے کام کرنے کو تیار نہیں تھے، بعد میں کمیٹی کو ختم کر دیا گیا۔

ملک سمیت سندھ میں جبری مذہب تبدیلی کو روکنے کے لیے قانون کی عدم موجودگی اور جبری مذہب تبدیلی کے عمل کی انتطامی نگرانی سے ایسے واقعات میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔

مذہب تبدیلی کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو صرف کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، جس کے بعد کسی بھی اقلیتی شخص کو مسلمان قرار دے دیا جاتا ہے، ایسے عمل کے لیے کوئی کم عمر کی حد مقرر نہیں ہے، اس لیے نابالغوں کا بھی قانونی طور پر مذہب تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

واضح طور پرریاست ملک میں مذہبی اقلیتوں کو جبری تبدیلی مذہب سے تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر ہندوؤں نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کم عمری کی شادیوں جیسے متبادل اقدامات کا سہارا لیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر برطانوی نشریاتی ادارے ّفری تھنکرٗ میں شائع ہوا اور اجازت سے اسے ترجمہ کرکے سندھ میٹرز میں شائع کیا گیا، یہ رپوٹ سندھ کے صحافی شوکت کورائی نے تحریر کی۔