ٹنڈو محمد خان کی مدر ٹریسا رضیہ سہتو
جنوبی سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان کی رضیہ سہتو جو کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر میں یتیم خانہ چلا رہی ہیں انہیں اس خدمتِ خلق کے عوض علاقے میں "مدر ٹریسا” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ مدر ٹریسا ایک البانوی بھارتی نژاد کیتھولک نن تھیں جنہوں نے اپنی زندگی بے سہارا افراد کے لیے وقف کر دی تھی اور کلکتہ کی ایک کچی آبادی میں فوت ہو گئیں۔
رضیہ سہتو اس وقت یتیم خانے میں 20 بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ فلاحی ادارہ ان کی والدہ، زلیخا سہتو نے دو دہائیاں قبل قائم کیا تھا جب انہیں سڑک کنارے پڑی ہوئی ایک نوزائیدہ بچی ملی تھی۔ وہ اسے اٹھا کر گھر لے گئیں اور اپنے گھر والوں کو بتایا کہ اب وہ اس بچی کی سرپرست ہیں۔
اس وقت ٹنڈو محمد خان میں نوزائیدہ بچوں کو نالوں اور کوڑے کے ڈھیروں پر چھوڑ جانے کا عمل بہت زیادہ دیکھنے میں آتا تھا۔ اس بنا پر رضیہ سہتو کی والدہ نے اپنے گھر کے باہر بچوں کا ایک جھولا رکھ دیا تاکہ لوگ بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ جانے کی بجائے اس جھولے میں رکھ جایا کریں۔ اس سے کئی بچوں کو سہتو کے آبائی گھر میں پناہ اور ایک نئی زندگی ملی۔
2021 میں زلیخا کی وفات کے بعد ان کی بیٹی، رضیہ سہتو نے یتیم خانے کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی جس میں کئی چیلنجز درپیش تھے۔
رضیہ نے اس حوالے سے بتایا کہ "تقریباً 20 سے 25 سال قبل میری والدہ نے یہ کام شروع کیا۔ ان کی وفات کے بعد میں تنہا اسے سنبھال رہی ہوں۔ میرے پاس 20 بچے ہیں اور میں ان کی ماں بھی ہوں اور باپ بھی۔”
وہ بتاتیں ہیں کہ "یہ کام مشکل ہے اور لوگ بہت باتیں سناتے ہیں۔ ہمارے کئی رشتے دار ان بچوں کو کراہت سے دیکھتے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے ہم پر اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے ہیں۔”
لیکن بچوں کے بہتر مستقبل کی خواہش کے تحت سہتو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے 12 بچوں کو ان کے والدین نے چھوڑ دیا تھا جبکہ 8 بچے سہتو کی نگہداشت میں اس وقت آئے جب ان کی ماؤں نے دوسری شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کچھ بچوں کو ان کے والدین نے بھی ساہتو کے سپرد کردیا کیونکہ وہ غربت کے سبب ان کی پرورش کرنے سے قاصر تھے۔
ساجی کارکن، جاوید ہالیپوٹو نے بتایا کہ "کسی حکومتی یا نجی ادارے نے سہتو کی طرح کا اقدام ٹنڈو محمد خان میں نہیں کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ "آج کل مہنگائی بہت بڑھ رہی ہے اور لوگوں کے لیے خود اپنے کھانے کا بندوست کرنا مشکل ہے، ایسے میں سہتو ان لاوارث بچوں کی نہ صرف پرورش کر رہی ہیں بلکہ انہیں پڑھا بھی رہی ہیں جو کہ بہت بڑا کام ہے۔” "رضیہ ہمارا فخر ہیں اور ٹنڈو محمد خان اور پورے سندھ کی "مدر ٹریسا” ہیں۔”
35 سالہ رضیہ پیسے کمانے کے لیے کپڑے سیتی ہیں اور ایک بھائی بھی خدمتِ خلق کے اس کام میں رکشہ چلا کر ان کی مدد کر رہا ہے۔ راشن اور کپڑوں کے عطیات سے بھی بچوں کو مدد مل جاتی ہے۔
لیکن سہتو کہتی ہیں کہ بچوں کو زیادہ بہتر زندگی دینے کے لیے انہیں حکومت اور این جی اوز کی طرف سے مزید مالی مدد درکار ہے۔ اپنی جانب سے، بچوں کی ذمہ داری کی وجہ سے رضیہ نے شادی سمیت اپنی ذاتی زندگی تک کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رضیہ سہتو نے بتایا کہ 2017 میں ان کی منگنی ہو گئی تھی لیکن جب سسرال والوں سے کہا کہ وہ شادی کے بعد ایک یتیم بچے کو بھی ہونے والے شوہر کے گھر میں اپنے ساتھ رکھیں گی تو ان لوگوں نے نہ صرف اس درخواست پر انکار کردیا بلکہ بچے کے لئے ہتک آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔ پھر سہتو نے کبھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ "میں نے ان بچوں کو اپنا لیا ہے اور ان کی ماں بن کر رہ رہی ہوں۔ ان بچوں کو بھی معاشرے میں زندگی گذارنے کا حق ہے۔