سندھ کو متحد رکھنے والی واحد شخصیت شاہ عبداللطیف بھٹائی

حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کو سندھ میں ایسی روحانی شخصیت کا درجہ حاصل ہے جس پر پوری قوم صدیوں سے متحد ہے اور ان کے کلام کو مقدس کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔

مختلف روایات اور تحقیقات کے مطابق شاہ عبدالطیف بھٹائی کی ولادت 1102 ہجری بمطابق 1689 عیسوی سن میں موجودہ ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا کے قریب ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔

مورخین اور محققین کے مطابق شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 1752 عیسوی بمطابق 14 صفر 1165ہجری میں رحلت فرمائی، آپ نے 63 سال کی عمر میں وفات پائی اور سندھ اب ہر سال 14 صفر کو عرس مناتی ہے اور عرس کی تقریبات تین دن تک جاری رہتی ہیں۔

شاہ عبدالطیف کے عرس کے موقع پر ہر سال سندھ میں پہلے دن عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے اور 2023 میں عرس کے پہلے دن یعنی 14 صفر بمطابق یکم ستمبر کو بھی عام تعطیل کی گئی۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی کا عرس: سندھ میں عام تعطیل کا اعلان

شاہ عبدالطیف سندھ کے لیے ایک ایسا نام ہے جس پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ متفق نظر آتے ہیں، کبھی کوئی ان کے نام، ان کے کلام اور ان کے نظرے سے انحراف ہی نہیں کرپاتا۔

ڈاکوؤں سے لے کر سیاست دانوں تک، خواتین سے مرد حضرات تک، بچوں سے بوڑھوں تک ہر کوئی شاہ لطیف پر ایسے متفق دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ نسل در نسل سندھ کے روحانی پیشوا رہے ہوں۔

مورخین اور محققین کے مطابق حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا سلسلۂ نسبد شیرخدا حضرت علیؓ اور رسول اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور اس کے حبیب، حضور اکرم ﷺ کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔ واقعہ کربلا، تاریخ، ثقافت اور رومانوی داستانوں سمیت انہوں نے امن، اتحاد اور جدوجہد کا پیغام عام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تین صدیوں سے ان کا کلام ایک روشن ستارے کی طرح بلندی پر جگمگا رہا ہے۔

شاہ لطیفؒ نے ابتدائی تعلیم نور محمد بھٹی سے حاصل کی ، وہ بھٹ شاہ سے بارہ میل دور گائوں وائی کے رہنے والے اور مشہور مدرس تھے۔جب کہ آپ نے اپنے والد شاہ حبیبؒ سے دینی تعلیم حاصل کی۔ شاہ لطیف آغاز ہی سے شعر گوئی کی جانب رغبت رکھتے تھے،عشق الٰہی میں ڈوبے ہوئے تھے۔آپ کارجحان شعرگوئی،سیاحت،بزرگوں فقیروںکی محبت میں بیٹھنا اور یاد الٰہی میں مشغولیت ہوگیا۔آپ کا بچپن بالا حویلی کےماحول میں والدین کےساتھ گزرا۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒنےسندھ کی زبان، ادب ثقافت، رومانوی داستانوں اور ثقافتی پہلوئوں کو اسلامی رنگ میں رنگ دیا، ان کی کافیاں، ان کےقصےدراصل اللہ کی عظمت وحقانیت اور اس کی وحدانیت کا شاعرانہ اظہار ہیں۔

آپ نےعمر کا بیش تر حصہ سیروسیاحت، فقیروں،درویشوں اورصوفیوں کی صحبت میں گزارا،ان سے فیض حاصل کیا۔ اس فیض کو اپنی فطری شعر گوئی کی قوت و صلاحیت کے نتیجے میں اشعار میں ڈھالا،چونکہ آپ سچے عاشق تھے اور عشق مجازی سے عشق حقیقی اور عشق الٰہی کی طرف پہنچے تھے، اسی لیے آپ کے کلام میں سوز و گداز بھرپور ہے،جوموسیقیت طبیعت میں تھی،وہی شاعری میں جھلک آئی،ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ،شعریت و موسیقیت سب ہی کچھ ملتا ہے۔

آپ کی شاعری میں خالق حقیقی سےمحبت اورعقیدت کا درس بہت نمایاں نظر آتا ہے،ارض سندھ سےمحبت کےاعتبار سےوہ آج بھی سندھی زبان کےسب سےبڑےشاعر ہیں۔ غریبوں کےساتھ حقیقی انس اور محبت بھی ان کی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔والد کی وفات کےبعد آپ نےریت کےایک ٹیلےپر حیدرآباد کےقریب ایک نئی بستی آباد کی جو بھٹ شاہ کےنام سےمشہور ہوئی۔یہیں آپ نےاپنی ساری عمر گزار دی۔

کہا جاتا ہے کہ شاہ صاحب کے پاس ہمیشہ تین کتب ساتھ ہوتی تھیں : قرآن پاک، مولانا روم کی مثنوی اور اپنے پر دادا شاہ کریم کی شاعری کا مجموعہ۔ شاہ عبداللطیف رحہ کے کلام میں قرآن پاک کی آیات کا جابجا اثر نظر آتا ہے۔

شاہ صاحب نے جو شاعری کی اس مجموعہ کلام کو ”شاہ جو رسالو“ کا نام دیا گیا۔ یہ مجموعہ کلام تیس ابواب پر مشتمل ہے، جن کو انہوں نے سروں کے نام سے مقرر کیا۔ شاہ صاحب کے کلام کے موضوعات میں اللہ کی ثنا، قدرت کے نظارے، پیارے نبی صہ کی تعریف، امن، پیار، جدوجہد، اخلاقیات اور محبت کا پیغام ہے۔ انہوں نے تاریخی اور عشقیہ داستانیں بھی بیان کی ہیں جن میں سوہنی ماہیوال، سسی پنوں اور عمر مارئی جیسی مشہور داستانیں بھی ملتی ہیں تو واقعہ کربلا جیسی عظیم قربانی کا بھی ذکر ہے۔

شاہ جو رسالو پہلی مرتبہ انگریزوں کے دور میں 1866 ع میں ڈاکٹر ارنیسٹ ٹرمپ مے جرمنی سے شایع کروایا۔ شاہ صاحب کی شاعری کا فلسفہ سمجھنے کے لئے ایک جرمن خاتون اسکالر ڈاکٹر این میری شمل نے پہلے سندھی زبان سیکھی اور پھر انہوں نے شاہ صاحب کے کلام پر تحقیق کی۔ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ: ”میں نے پوری دنیا کے شعرا کو پڑھا مگر مجھے کسی کا بھی فلسفہ شاہ لطیف کے برابر نہیں لگا، اس حوالے سے شاہ صاحب کے کلام کو عالمی کلاسیکی شاعری سے پرکھا جا سکتا ہے۔“

شاہ صاحب کا کلام سلیس و بلیغ انداز میں بیان کیا ہوا ہے۔ سندھ کے ہزاروں لوگ شہر، گاؤں اور پہاڑوں میں بسنے والے شاہ جو رسالو کے حافظ ہیں۔

شاہ صاحب کو بچپن سے ہی شاعری سے بہت رغبت تھی۔ وہ اپنے والد شاہ حبیب سے شاعری سیکھتے تھے۔ شاہ لطیف کی شاعری میں آفاقی پیغام ہے جیسا کہ شاہ جو رسالو کے پہلے سر میں فرماتے ہیں :

تیری ہی ذات اول و آخر
تو ہی قائم ہے اور تو ہی قدیم
تجھ سے وابستہ ہر تمنا ہے
تیرا ہی آسرا ہے رب کریم
کم ہے جتنی کریں تری توصیف
تو ہی اعلیٰ ہے اور تو ہی علیم
والی شش جہات واحد ذات
رازق کائنات، رب رحیم
(منظوم اردو ترجمہ: شیخ ایاز)