تحریر: جی این مغل                   

بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج سندھ مکمل طور پر لاوارث نظر آرہا ہے، یہ سوچ اس وقت کم و بیش سارے سندھ کی ہے‘ سندھ کے اکثر لوگ شدید تذبذب اور پریشانی کا شکار ہیں‘ آج جو سندھ نظر آرہا ہے ویسا تو کبھی نہیں تھا۔ سندھ جب سے وجود میں آیا ہے کم و بیش خوشحال رہا ہے سندھ شاید اس ریجن کے سب سے زیادہ خوش نصیب علاقوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔

سندھ کو اللہ پاک نے کئی برکتوں سے نوازا‘ سندھ کا ایک خاص علاقہ سمندر کی پٹی (Belt) رہا ہے‘ کافی عرصہ پہلے سندھ میں کئی سمندری بندرگاہیں تھیں‘ اس وقت کراچی پورٹ وجود میں نہیں آئی تھی‘ قدرت نے سندھ کو فقط سمندر سے نہیں بلکہ دریا سے بھی نوازا تھا‘ ایک لحاظ سے سندھ سمندر اور دریائے سندھ کا سنگم رہا ہے، اللہ پاک نے سندھ کو کیا عطا نہیں کیا‘ سندھ میں کئی پہاڑ ہیں جن میں کیا کیا نہیں چھپا ہوا ہے‘ سندھ کو اللہ پاک نے سورج اور ہواؤں کی نعمت سے بھی نوازا ہے‘ سندھ کی سرزمین کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن میں ہر قسم کے کھیت‘ سبزیاں‘ میوے شامل ہیں۔

سندھ کے لوگ شروع سے نہ صرف کھیت اگاتے تھے بلکہ چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں مختلف اقسام کی چیزیں اور آئٹم تیار کرتے تھے جو ہر سال بڑے پیمانے پر برآمد کئے جاتے تھے‘ اس وقت ضلع ٹھٹھہ میں دو بڑی بندرگاہیں تھیں جہاں کئی ملکوں سے جہاز آتے تھے جن میں سوار لوگ سندھ کے ان آئٹم کی خریداری کرتے تھے‘اس مرحلے پر یہ بات بھی کرنا غیر ضروری نہیں کہ اس دور میں سندھ کے لوگ بھوکے نہیں ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ جب سے وجود میں آیااس کی حیثیت امن کی دھرتی کی رہی ہے‘ سندھ میں مسلمانوں کے علاوہ دوسری بڑی کمیونٹی ہندوؤں کی تھی۔

سندھ کے ہر شہر اور گاؤں میں مسلمان اور ہندو اکٹھے اور امن سے رہتے تھے‘ ہندوؤں کے علاوہ کراچی اور سندھ کے کچھ دیگر علاقوں میںمسیحی بھی رہتے تھے اور کبھی ان سب کے درمیان گرما گرمی نہیں ہوئی۔ہندوؤں کے اہم تہواردیوالی کے موقع پر ہندو اپنے گھروں میں جو پکاتے تھے وہ محلے کے مسلمانوں کو بھی بھیجتے تھے اور عید وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں کے گھروں میں جو پکتا تھا اس کا حصہ محلے کے ہندوؤں کو ارسال کیا جاتا تھا‘ اس پس منظر میں سندھ کے لوگ جب آپس میں ملتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ ’’وہ سندھ کہاں گیا؟‘‘ آج کے سندھ کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ دھرتی اب بھوک‘ بے روزگاری‘ جھگڑوں‘ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی سرزمین نظر آتی ہے‘ کچھ عرصے سے سندھ میں روزانہ کی بنیاد پر جو کچھ ہورہا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ سارے سندھ کو لوٹ لیا گیا ہے‘ اس وقت کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ جب کہیں لوٹ مار نہ ہوتی ہو‘ خود کشی نہ ہوتی ہو‘ کہیں باپ بیٹے کو قتل کردیتا ہے‘ تو کہیں بیٹا باپ کو قتل کردیتا ہے‘ کہیں میاں بیوی کو قتل کردیتا ہے تو کہیں بیوی شوہر کو قتل کردیتی ہے‘ اغوا کی وارداتوں کی تو حد ہی نہیں‘ اس وقت اخبارات خاص طور پر سندھی اخبارات کو پڑھیں تو صرف ایسی افسوس ناک خبریں ہی پڑھنے کو ملیں گی۔

اس سلسلے میں سندھ کے ایک اخبار کی خبریں یہاں پیش کررہا ہوں۔ یہ پڑھنے کے بعد پاکستان کے لوگ خود اندازہ لگائیں کہ آج سندھ کی صورتحال کیا ہے۔’’ کھپرو کے نزدیکی گاؤں فضل مری میں 15 برس کے میٹرک کے ایک ہندو شاگرد ڈاھراج ولد ہرچند کولہی نے فرمائش پوری نہ ہونے پر گردن میں پھندہ ڈال کر خود کشی کرلی۔ فیض گنج کے قریب ایک نوجوان لڑکی کو اس کے بھائی نے بدکاری کے الزام میں قتل کردیا‘ کلوئی میں ملیریا پر کنٹرول نہیں ہوسکا ایک اور بچی فوت‘ کوٹری کے سائٹ والے علاقے سے ایک بوڑھے شخص کی لاش ملی‘ جامشورو میں ڈاکوؤں کی کارروائیاں بڑھ گئیں‘ ڈاکوؤں نے پیٹرول پمپ کے منیجر سے 12 لاکھ روپے لوٹ لئے‘ غلام اللہ اور اردگرد کے علاقے میں کتوں نے 4 افراد کو کاٹ لیا‘ شکار پور کے کچے کے علاقے سے تین مزدور اغوا کرلئے گئے‘ اب تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں‘ نؤں دیرو میں گندگی میں سے ایک شخص کی لاش ملی جس کی اب تک کوئی شناخت نہیں ہوسکی ، فرید آباد کے نزدیک ایف بی بند کے پاس 8 سال کی ایک بچی پانی میں ڈوب کر انتقال کرگئی‘ بچی کے والدین بچی کو قتل کرنے کا الزام لگا رہے ہیں‘ دادو سول اسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے ایک ماں کی گود میں بچہ فوت‘ گھوٹکی‘ شکار پور اور کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن پلان تیار کیا گیا ہے‘ رینجرز نے آپریشن شروع کرنے کے لئے راستے سیل کردیئے ہیں‘ رینجرز کی طرف سے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے بارے میں تحقیقات‘ ڈاکوؤں کے مقامات کے نقشے تیار کئے گئے ہیں‘ لاڑکانہ سے دو نوجوانوں کو اغوا کیا گیا‘ دونوں مغویوں کے والدین کو ٹیلی فون کرکے 70 لاکھ روپے تاوان مانگاگیاہے‘ پریالو کے دو مزدوروں کا ٹیلی فون پر عورت کی آواز سناکر اغوا‘ اب اغوا کرنے والے مزدوروں سے ان کے عزیزوں کو ٹیلی فون کراکر ان کی رہائی کے لئے 5 لاکھ روپےتاوان کا مطالبہ کررہے ہیں، جاتی اور اردگرد کے علاقے میں بدامنی عروج پر‘ لوٹ مار کی دو الگ الگ وارداتیں‘ گاؤں غلام شاہ کے بس اسٹاپ پر ڈاکونےایک شخص کوموٹر سائیکل روک کر لوٹ لیا دوسری طرف اسی علاقے میں ڈاکو ایک زمیندار پر تشدد کرکے اس کی موٹر سائیکل چھین کر لے گئے‘ گاؤں سگیو کے نزدیک چھٹی کلاس کا ایک شاگرد تین دن سے غائب ہے۔

……………………………………

یہ مضمون ابتدائی طور پر روزنامہ جنگ میں شائع ہوا