17 سال میں سکرنڈ لیبارٹری میں کتے اور سانپ کی ویکسین تیار نہ ہوسکی
سندھ میں سانپ اور کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے افراد کی جان بچانے والی ویکسین تیار کرنے کے لیے تیار کردہ اینٹی اسنیک وینم اینڈ اینٹی ربیز لیبارٹری سکرنڈ کا منصوبہ 17 سال گزر جانے کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ دے سکا اور سندھ تاحال اینٹی ریبیز کی اپنی ویکسین سے محروم ہے۔
پاکستان کی پہلی اور ایشیا کی دوسری لیبارٹری میں کتے اور سانپ کے کاٹنے کے بعد تحفظ کی ویکسین سمیت دیگر جانوروں کی بیماریوں سے متعلق ویکسینز تیار کی جانی تھیں۔
گزشتہ 17 سال میں ویکسین کی تیاری اپنی جگہ لیکن اب وہاں جانور بھوک سے مرنے لگے ہیں۔
ویکسین کے تجربات کے لیے خریدے گئے جانور بھی اینٹی سنیک اور اینٹی ریبیز لیبارٹری میں بھوک کے باعث مرنے لگے ہیں، اونٹ، گھوڑے، سانپ اور کتے غذا نہ ملنے کی وجہ سے نڈھال ہو چکے ہیں لیکن انتظامیہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
ویکسین بنانے کا منصوبہ 2006 میں 44 کروڑ روپے کے ابتدائی بجٹ سے شروع کیا گیا تھا اس منصوبے کے تحت سکرنڈ میں سیرولیبارٹری قائم کرنا تھی لیکن یہ منصوبہ 2006 سے تاحال کاغذات میں موجود ہے اور لیبارٹری کی عمارت بنائے جانے کے بعد تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
اس منصوبے کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کوسب سے پہلے سکرنڈ میں شروع کرنے کے لیے عمارت تعمیر کی گئی تھی جس کے بعد2007 میں اسے لیاقت یونیورسٹی جامشورو منتقل کردیا گیا، کچھ عرصے کے بعد جامشورو یونیورسٹی نے یہ منصوبہ پیپلز میڈیکل کالج نواب شاہ کو منتقل کیاجبکہ چوتھی بار محکمہ صحت نے اس منصوبے کو گمبٹ انسٹیٹوٹ منتقل کردیا۔
ایک سال سے یہ منصوبہ گمبٹ انسٹیٹوٹ میں سرکاری کاغذوں میں گھومتا پھرتا رہا، منصوبے میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ صحت نے اس منصوبے سے جان چھڑاتے ہوئے تحریری طور پر اسے صوبائی لائیو اسٹاک محکمے کے حوالے کردیا جس کی سمری کی منظوری سابق وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے دی۔
اس طرح یہ منصوبہ محکمہ صحت میں 17سال سے مختلف محکموں میں منتقلی کے مختلف مراحل سے گزارتا رہا لیکن بدقسمتی سے ویکسین بنانے کے عمل سے محروم رہا جبکہ اس منصوبے کے لیے لیبارٹری کی عمارت سکرنڈ میں بنائی گئی تھی جس پرکئی کڑور روپے خرچ کردیے گئے۔
ویکسین تیار کرنے کے لیے بنائی گئی سکرنڈ لیبارٹری میں جانور بھوک مرنے لگے
دریں اثنا محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر اور اینٹی اسینک و ریبیز لیبارٹری کے نئے سربراہ ڈاکٹر نذیر کلہوڑو نے ایکسپریس کو بتایا کہ اس منصوبے کی بنیاد 2006 میں رکھی گئی تھی جس کا مقصد سکرنڈ میں اینٹی اسنیک وینم اینڈ اینٹی ریبیز لیبارٹری قائم کرکے سانپ اور کتے کے کاٹے کے علاج کیلیے ویکسین کی پروڈکشن کرنا تھی لیکن یہ منصوبہ کسی سے نہیں چل سکا اور 2006 سے یہ منصوبہ مختلف اداروں میں کاغذوں میں منتقل ہوتا رہا تاہم محکمہ صحت نے 2023 میں سابق وزیراعلی سندھ سے سمری منظورکرواتے ہوئے اسے محکمہ لائیو اسٹاک کو منتقل کردیا اور انہوں نے مجھے تحریری طور پر اس منصوبے کا نیا سربراہ بنایا۔
انھوں نے بتایا کہ اس منصوبے میں 22 ملازمین کام کرتے تھے جن کو ڈیڑھ سال سے تنخواہ نہیں ملی، ڈاکٹر نذیر کلہوڑکا کہنا تھا کہ منصوبے کا سربراہ ہونے کی حثییت منصوبے کا تخمینہ (پی سی ون) ازسر نو بنایا گیا جس پر 2 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن رواں مالی سال میں 819 ملین کا بجٹ منظور کیا گیا ہے جو تاحال محکمہ خزانہ نے جاری نہیں کیا۔
انھوں نے بتایا کہ رقم ملتے ہی اس منصوبے پر از سر نو کام شروع کردیا جائیگا جبکہ ویکسین کی کمرشل پروڈکشن کے لیے بھاری مشینری اور جدید الات کی ضرورت ہے۔