این آئی سی وی ڈی میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں "خطرناک اور گہرے مالی بے ضابطگیوں” پر فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ اپیل ڈائریکٹر جنرل آڈٹ سندھ کی ایک سخت آڈٹ رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں مالی سال 2023-24 کے دوران تقریباً 40 ارب روپے کی مالی و انتظامی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ٹی آئی پی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیجے گئے اپنے باضابطہ خط میں سالانہ آڈٹ و معائنہ رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں این آئی سی وی ڈی میں ہونے والی 42 بڑی بے ضابطگیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف دل کے مفت علاج کے لیے جانا جاتا ہے بلکہ اس کے سیٹلائٹ مراکز سندھ بھر میں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بھرتیوں، تنخواہوں کی ادائیگی، خریداری اور مالیاتی نظم و ضبط جیسے شعبوں میں وسیع پیمانے پر قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ادارے نے چیف فنانشل آفیسر ، ہیڈ آف ہیومن ریسورس، ہیڈ آف سیکیورٹی، مینیجر، اور اسسٹنٹ مینیجر جیسے اعلیٰ عہدوں پر بھرتیاں شفاف طریقہ کار اور میرٹ کے بغیر کیں۔ ان افراد کو دی جانے والی غیر معمولی تنخواہیں 17 کروڑ روپے سے تجاوز کر گئیں، جن میں سے بعض کو سالانہ 84 لاکھ روپے تک کی ادائیگی کی گئی، جو سرکاری تنخواہ کے معیار سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں عملے کے کھانے اور مہمان نوازی پر 1 کروڑ روپے سے زائد کے غیر مجاز اخراجات کی نشاندہی کی گئی، جن پر نہ تو کوئی ٹینڈر جاری کیا گیا، نہ ہی دستاویزات موجود ہیں، اور نہ ہی مجاز حکام کی منظوری لی گئی۔ ٹی آئی پی کے مطابق خریداری میں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے براہ راست معاہدے دیے گئے، جب کہ بڑی مقدار میں نقد رقوم کی نکاسی بغیر کسی آڈٹ ٹریل یا وضاحت کے کی گئی، جو ممکنہ بدعنوانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق این آئی سی وی ڈی میں اندرونی مالیاتی کنٹرول کمزور ہیں، لین دین کی تصدیق نہیں ہو پاتی، اور نگرانی کا مؤثر نظام موجود نہیں، جس سے ادارہ کرپشن، دھوکہ دہی، اور نااہلی کا شکار ہو سکتا ہے۔
آڈٹ کے دوران ایگزیکٹو ڈائریکٹر، این آئی سی وی ڈی کراچی کے دفتر سے گزشتہ تین سالوں میں کی جانے والی اینجیو پلاسٹی، اینجیوگرافی، بائی پاس سرجری، اور اموات کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس کے علاوہ زیر التوا سرجریوں، این آئی سی وی ڈی ویلفیئر ٹرسٹ اکاؤنٹ، کیش اور نان-کیش عطیات، کارڈیو ویسکیولر فاؤنڈیشن فنڈز، 2023-24 میں موصول شدہ فنڈز، ڈونیشنز، انڈومنٹ، سرمایہ کاری سے حاصل شدہ آمدن، اور بینک اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات بھی کئی تحریری درخواستوں کے باوجود آڈٹ ٹیموں کو فراہم نہیں کی گئیں۔
این آئی سی وی ڈی، جو کبھی پاکستان کے پبلک ہیلتھ کے ترقی یافتہ ماڈل کے طور پر جانا جاتا تھا، کئی برسوں سے مالی و انتظامی بے ضابطگیوں کے الزامات کی زد میں ہے۔ حکومت سندھ سے بھاری فنڈ حاصل کرنے والا یہ ادارہ تیزی سے پھیل چکا ہے اور اس کے مختلف شہروں میں سیٹلائٹ سینٹرز موجود ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ این آئی سی وی ڈی پر سنجیدہ آڈٹ اعتراضات اٹھے ہوں۔ ماضی میں بھی آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) اور ڈی جی آڈٹ سندھ کی رپورٹس میں ادارے کی مالی دستاویزات کی عدم فراہمی، فنڈز کی غلط درجہ بندی، اوور انوائسنگ، اور ڈبل پیمنٹس جیسے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ بعض کیسز میں ادارے نے آڈٹ ٹیموں کو مکمل ریکارڈ دینے سے گریز یا انکار کیا، جس سے شکوک و شبہات مزید بڑھے۔ نیز ادارہ بغیر کسی باقاعدہ بورڈ آف گورنرز کے کام کر رہا ہے، جس سے اس کی خود مختاری اور احتساب پر سوال اٹھتے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنے حالیہ خط میں سفارش کی ہے کہ وزیر اعلیٰ فوری طور پر بے ضابطگیوں میں ملوث افسران کو معطل کریں، ادارے کا آزادانہ فرانزک آڈٹ کروائیں، اور غیر قانونی طور پر خرچ کیے گئے فنڈز کی قانونی چارہ جوئی کے ذریعے وصولی کو یقینی بنائیں۔
دوسری طرف این آئی سی وی ڈی کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان نے تمام سرکاری اداروں کو عمومی مشاہدات جاری کیے ہیں جو کہ ابتدائی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور متعلقہ ادارے ان کا جواب دیتے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ان مشاہدات کی بنیاد پر بدعنوانی یا بے ضابطگی کا الزام لگانا قبل از وقت اور گمراہ کن ہے۔