سندھ میں انسانی بحران، سوا کروڑ لوگ بے گھر, 500 ارب کا نقصان
سندھ حکومت کے مطابق صوبے کی 5 ہزار سے زائد یوسیز کے گائوں مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں—فوٹو: سنجے سادھوانی، ٹوئٹر
شدید بارشوں کے بعد سیلاب آنے سے پورے پاکستان میں انسانی بحران پیدا ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، تاہم سندھ و بلوچسان میں حالات انتہائی خراب ہونے کے بعد انسانی بحران جنم لے چکا اور سوا کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے پانی پر بیٹھ کر زندگی گزارنے لگے۔
ملک بھر میں جون کے اختتام سے شروع ہونے والی بارشیں 15 اگست کے بعد سندھ میں تیز ہوئیں اور 16 سے 24 اگست تک صوبے بھر میں مسلسل تیز بارشیں ہونے سے صوبے کے 23 اضلاع ڈوب گئے۔
کراچی ڈویژن کے علاوہ صوبے کے تمام ڈویژنز کے سب ہی اضلاع بارشوں سے سخت متاثر ہوچکے ہیں اور خیرپور، لاڑکانہ، سکھر اور شکارپور سمیت کئی شہروں میں 8 فٹ تک پانی جمع ہوگیا جب کہ ہزاروں دیہات ڈوب چکے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے 23 اگست کو ہی تصدیق کی تھی کہ بارشوں سے ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، تاہم حقیقی طور پر ان کی تعداد 2 کروڑ تک ہوگی، جس میں سے سوا کروڑ لوگ بے گھر ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے بارش کے پانی میں بیٹھ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سندھ کے ہزاروں دیہات کا شہروں سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور وہاں سے اگرچہ زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی طرح نکل کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں، تاہم اس باوجود ہزاروں دیہات میں درجنوں افراد پھنسے ہوئے ہیں۔
مسلسل سیلاب اور بارشوں سے صوبے بھر میں نظام زندگی درہم برہم ہے، بجلی اور گیس سمیت مواصلات کے تمام وسائل تعطل کا شکار ہیں، ٹرینوں کی آمد و رفت سمیت روڈ اور راستے بھی زیر آب آ چکے ہیں۔
مسلسل بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب سے جہاں سندھ بھر میں اجناس اور خوراک کی قلت پیدا ہوچکی ہے، وہیں لوگ معمولی بخار کی دوائی سے بھی محروم ہیں جب کہ محفوظ رفع حاجت کے وسائل نہ ہونے سے بھی وبائیں پھوٹ پڑنے کا خدشہ بھڑ چکا ہے۔
گزشتہ 10 سے کھلے آسمان میں بارشوں کے پانی کے اوپر زندگی گزارنے والے سوا ایک کروڑ لوگوں کا رفع حاجت کا فضلہ بھی پانی میں شامل ہو رہا ہے جب کہ کئی علاقوں میں بے سہارا لوگ اسی پانی کو پینے پر بھی مجبور ہیں۔
سندھ بھرمیں حالیہ بارشوں سے اب تک تخمینے کے مطابق 500 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، کیوں کہ ماضی میں 2011 میں آنے والے سیلاب سے بھی صوبے میں 320 اروب روپے تک کا نقصان ہو چکا تھا جب کہ اس بار صوبے میں زیادہ تباہی ہوئی ہے۔
اب تک بارشوں اور سیلاب سے صوبے بھر میں لاکھوں مویشی ہلاک ہوچکے ہیں اور ان کے فضلے بھی سیلابی پانی میں موجود ہیں جب کہ اب تک 20 لاکھ کے قریب گھر مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔
صوبے کے 95 فیصد کسانوں کے تمام فصل تباہ ہوچکے ہیں اور سیلابی پانی کے آئندہ تین ماہ تک خشک ہونے کے امکانات بھی نہیں، جس وجہ سے ستمبر کے بعد شروع ہونے والے موسم سرما میں کئی انسانی جانیں ضائع ہونے کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔