سندھ میں 21 فیصد لوگ ہراسانی کا شکار، ملزمان کو سزا کی شرح صفر ہونے کا انکشاف
سندھ بھر میں زبانی، ذہنی و جسمانی طور پر 21 فیصد افراد کے ہراساں ہونے جب کہ ان کیسز میں ملوث ملزمان کو سزا کی شرح صفر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر ثمینہ زہری کی زیرِ صدارت سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا۔
اجلاس کے دوران سندھ ہیومن رائٹس محکمے کی جانب سے کمیٹی کو سندھ میں قتل، گھریلو تشدد اور ریپ کے مقدمات پر بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ سندھ پولیس میں حفاظتی سینٹرز موجود ہیں۔
اجلاس کے دوران سندھ میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی شرح 35 فیصد اور عصمت دری میں خواتین کی شرح 14 جبکہ بچوں کی 14 فیصد ہے۔
اسی طرح، قتل کی شرح 3 فیصد اور چائلڈ لیبر کی شرح 2 فیصد ہے جبکہ جسمانی سزا کی شرح 4 فیصد اور چائلڈ میرج کی شرح 11 فیصد ہے۔
لاپتا اور اغواء ہونے والوں کی شرح 14 فیصد ہے جب کہ سندھ میں جنسی طور پر ہراساں ہونے والے افراد کی شرح 21 فیصد رپورٹ کی گئی ہے۔
حکام نے اعتراف کیا کہ ملزمان کو سزا کی شری صفر ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
چیئرپرسن کمیٹی نے اجلاس میں آئی جی سندھ کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کی موجودگی، گھریلو تشدد، زیادتی، قتل اور بے گناہوں کے خلاف جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق اہم مسائل سے نمٹنے کے بارے آگاہی کے لئے ضروری تھی۔
سینیٹر ڈاکٹر ثمینہ زہری نے کہا ہے کہ میرا فوکس پسے ہوئے طبقات ہیں، بچوں کا ریپ کیا جاتا ہے تو ملزمان کو چھوڑ کیسے دیا جاتا ہے؟
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ متاثر افراد مقدمات کے اندراج کے لیے پولیس تھانوں میں جانے سے ڈرتے ہیں، گھریلو تشدد کے واقعات میں، مار پیٹ اور زیادتی کا شکار خواتین اکثر اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ رہتی ہیں، جو جان لیوا حالات کو برداشت کرتی ہیں۔دیہی علاقوں میں ایسے معاملات کی رپورٹنگ کم ہے۔
چیئرپرسن نے مزید کہا کہ طاقت اکثر ان علاقوں میں جرگوں کے پاس رہتی ہے،آئی جی ان مسائل کو اہم نہیں سمجھتے ہیں تو ان کو صحیح طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ 1058 ریگولر کیسز میں سے 985 اب بھی زیر التوا ہیں اور یہ جاننا ضروری ہے کہ معاملات کہاں غلط ہو ئے۔