مولوی عمر سرہندی، ڈی آئی جی و ایس ایس پیز سمیت شاہنواز کنبھر کے قتل کا مقدمہ 45 افراد کے خلاف درج
میرپور خاص میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں مارے گئے ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کا مقدمہ سندھڑی تھانے میں درج کر لیا گیا۔
مقدمہ ڈاکٹر شاہنواز کے برادر نسبتی کی مدعیت میں درج کیا گیا، مقدمے میں قتل، انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء لنجار کے مطابق میرپور خاص واقعے پر ایف آئی آر درج کر لی گئی، مقدمے کا اندراج مقتول کے وارث کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
اپنے بیان میں ضیاء الحسن لنجار نے کہا کہ مقدمہ قتل و دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا، ہم عدل و انصاف پر یقین رکھتے ہیں، کوئی کتنا با اثر یا اعلیٰ افسر کیوں نہ ہو آئین اور قانون کا احترام لازم ہے۔
وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ قانون کی رٹ اور شہریوں کے تحفظ کے لیے حکومت پرعزم ہے۔
مقدمے میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) میرپورخاص، سینیئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس(ایس ایس پی) میرپور و عمرکوٹ سمیت اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) سندھڑی سمیت 45 پولیس اہلکاروں اور مولوی عمر سرہندی سمیت دیگر افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شاہنواز کنبھر جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہوا، سندھ حکومت کا اعتراف
سابق ڈی آئی جی جاوید جسکانی بھی مقدمے میں نامزد ہیں، سابق ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری اور سابق ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
مقدمے میں عمرکوٹ کے مولوی عمر سرہندی بھی نامزد کیے گئے ہیں۔
سندھڑی تھانے میں مقدمہ قتل، دہشتگردی اور دیگر سنگین دفعات کے تحت درج کیا گیا جبکہ اس میں ایف آئی اے کے دی ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ پریونشن اینڈ پنشمنٹ ایکٹ 2022 شامل ہیں جس میں سی آئی ڈی انچارج دانش بھٹی، سب انسپکٹر ہدایت اللہ ناریجو و دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی نامزد کیا گیا۔
درج ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شاہنواز کو پولیس نے اپنی حراست میں قتل کیا، اس قتل میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر لوگوں کو اکسایا، قتل کا مقدمہ ڈاکٹر شاہنواز کے بہنوئی ایڈووکیٹ ابراہیم کی مدعیت میں درج ہوا۔
ڈاکٹر شاہنواز کو کراچی سے تحویل میں لے کر ایس ایس پی عمرکوٹ کے ریڈر سب انسپکٹر عبدالستار کے حوالے کیا گیا تھا جن کے ہمراہ کانسٹیبل نواب سمیجو، امان اللہ، ندیم کھوسو، شاہ محمد، عرفان شاہانی، مشتاق علی اور عطا حسین تھے۔
ایف آئی آر میں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اکسانے والے افراد تدفین میں رکاوٹ ڈالنے، لاش جلانے والے 19 معلوم اور 15 نامعلوم افراد کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق جعلی مقابلے کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو سول اسپتال لایا گیا، جسم پر گولیوں کے نشانات، بازوؤں، کندھوں اور ٹانگوں پر تشدد کے نشانات تھے۔
دو دن قبل ہی سندھ حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔
وزیر داخلہ سندھ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہنواز کنبھر کی ہلاکت میں ملوث پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔
ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کو میرپور خاص پولیس نے 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
شاہنواز کنبھر پر توہین مذہب کا الزام تھا اور ان پر عمرکوٹ تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔