ارسا ایکٹ میں تبدیلیاں اور چولستان نہر، سندھ میں خشک سالی کا سبب کیسے بنے گی؟
پاکستان میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے متعلق قانون میں ترامیم کی تجاویز اور دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے سے متعلق فیصلے پر سندھ احتجاج پذیر ہے۔
سندھ کے سیاست دانوں، حکمرانوں اور عوام سمیت ماہرین کا کہنا ہے کہ ارسا ایکٹ میں ترامیم سمیت خصوصی طور پر پنجاب میں چولستان نہر کی تعمیر سے سندھ خشک سالی کا شکار ہو جائے گی اور ایک خطے کو سیراب کرنے کے بدلے سندھ کے بڑے حصے کو بنجر بنا دیا جائے گا۔
سندھ کے ماہرین اور سیاست دانوں کے خدشات ہیں کہ چولستان نہر کو باقی صوبوں کے حصے سے پانی دے کر باقی صوبوں کا پانی کم کیا جائے گا جب کہ پہلے ہی ارسا سندھ سمیت دیگر چھوٹے صوبوں کو اپنے حصے سے کم پانی فراہم کرتا ہے۔
ہم اس مضمون میں ارسا ایکٹ، چولستان نہر، گرین پاکستان انیشیٹو اور سرمایہ کاری کونسل کے اختیارات اور فیصلوں پر بات کریں گے۔
دیکھا جائے گا کہ کس طرح پنجاب چولستان نہر کے لیے ارسا، گرین انیشیٹو پاکستان، ایکنک اور خصوصی سرمایہ کاری سمیت دیگر اعلیٰ وفاقی حکومت کے پلیٹ فارم استعمال کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
ارسا ایکٹ کیا ہے اور اس میں کیا تبدیلیاں کرنے کی تجویز ہے؟
موجودہ ساخت کے تحت ارسا متعلقہ صوبے کی جانب سے نامزد کردہ چار اراکین پر مشتمل ہوتا ہے اور ارسا کے چیئرمین کا عہدہ صوبوں کے درمیان تین سال کے لیے گھومتا ہے اور اس کے علاوہ وفاقی ممبر بھی ہے اور اس طرح ہر صوبہ سسٹم کو ملکیت دیتا ہے۔
لیکن اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے تیار کردہ مسودے کے مطابق مجوزہ ساخت کے تحت اتھارٹی ایک چیئرمین اور چار ممبران پر مشتمل ہو گی۔
تجاویز کے مطابق ارسا چیئرمین وفاقی حکومت کا ملازم ہوگا، جو بی پی ایس 21یا اس کے مساوی یا اس سے اوپر میں خدمات انجام دے رہا ہو یا دے چکا ہو، جس کا تقرر وزیر اعظم کے ذریعے کیا جائیگا۔
اسی طرح ہر ممبر کو متعلقہ صوبوں کے ہر وزیراعلیٰ کی جانب سے اعلیٰ درجے کے انجینئروں میں سے نامزد کیا جائے گا، جیسا کہ تجویز کیا گیا ہو۔
مجوزہ ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کے پاس ایک آزاد ماہرین کی کمیٹی ہوگی، جس میں سیکریٹری ٹیکنیکل ہوں گے، جو کمیٹی کے کنوینر کے طور پر کام کریں گے، دو ماہرین، جو ہائیڈرو لوجی، ہائیڈرولک ماڈلنگ،یامتعلقہ انجینئرنگ کے شعبوں میں تجربہ رکھتے ہوں، جی آئی ایس ، ریموٹ سینسنگ، آبپاشی، یا متعلقہ انجینئرنگ کے شعبوں میں تجربہ رکھنے والے دو ماہرین، اس طرح کے دوسرے ماہرین، دیگر متعلقہ انجینئرنگ یا جدید شعبوں میں مطلوبہ تجربہ رکھنے والے، جیساکہ پانی سے متعلق مسائل کو تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر حل کرنے کے ماہر ہوں وہ بھی اس کا حصہ ہوں گے۔
ارسا ایکٹ میں دوسری کون سی تبدیلیاں کرنے کی تجویز ہے؟
اسی طرح گرین پاکستان انیشی ایٹیو‘ کے تحت پاکستان ایریگیشن نیٹ ورک کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم کے نفاذ، ارسا پالیسی کی ازسر نو تشکیل اور چھ نئی سٹریٹیجیک نہروں کی تعمیر کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
مجوزہ نہروں میں سندھ میں رینی نہراور تھر نہر، پنجاب میں چولستان نہر ، گریٹر تھل نہر، بلوچستان میں کچھی نہر اور خیبر پختون خوا میں چشما رائیٹ بینک کینال (سی آر بی سی) شامل ہیں۔
چولستان نہر کیا ہے؟
چولستان نہر میں اضافی پانی کیلئے 25 جنوری 2024 کو ارسا کو مراسلہ ارسال کیا گیا۔ اس حوالے سے نیسپاک نے2018 میں فزیبلٹی سٹڈی کی تھی۔ ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک 4200 کیوسک پانی کی صلاحیت رکھنے والی نئی چولستان نہر کیلئے جون 2024 تک سٹڈی مکمل کی۔
پہلے پنجاب حکومت نے منصوبے کی منظوری دی، پھر وفاق کے تحت۔سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کو دستاویزات ارسال کی گئیں، پھر اسے ایکنک بھیجا گیا اور تمام فنڈز وفاق سے حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ منصوبے کے تحت 7 لاکھ 26 ہزار 49 ایکڑ سے زائد زمین کو زرخیز کیاجائے گا۔ ایکنک نے سندھ کی مخالفت کے باوجود اکتوبر 2024 میں منصوبے کی منظوری دی۔
سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی( سی ڈی ڈبلیو پی) نے کم ازکم 3 بڑے بین الصوبائی خدشات کے باوجود چولستان کینال منصوبے کے 231 ارب روپے مالیت کے پہلے مرحلے کا فیصلے کرنے کے لیے نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی ( ایکنک) کو ارسال کیا، جہاں 12 اکتوبر کو اس کی منظوری دی گئی۔
بہاولنگر اور بہاولپور کے درمیان ہاکڑا کینال کے تمام علاقے کو منصوبے کے تحت سیراب کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت 7 لاکھ 26 ہزار 49 ایکڑ سے زائد زمین کو زرخیز کیاجائے گا لیکن اس سے سندھ اور بلوچستان میں پانی کی قلت ہوگی اور وہاں آباد زمینیں بنجر بن جائیں گی۔
خصوصی سرمایہ کاری کونسل اور گرین انیشیٹو پروگرام کیا ہے؟
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت ’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے متنوع موضوعات ہیں جن میں ماحولیاتی نظام کی بحالی، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ، زرعی اور سماجی شجرکاری، پانی کے ضیاع کی حوصلہ شکنی اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو شجرکاری کی مہم کا حصہ بنانا ہے۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو پلان میں چولستان فلڈ فیڈر کینال،گریٹر تھل کینال (جی ٹی سی)، کچھی کینال کی تعمیر، رینی کینال کی تعمیر، تھر کینال کی تعمیر اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر بھی شامل ہے۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل یعنی ایس آئی ایف سی کی وزیر اعظم شہباز شریف جون 2023 میں تشکیل کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا تھا۔
’اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ کے نام سے بنائی گئی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں ’گلف کوآپریشن کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔
مذکورہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہےاور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے معدوم ہوتے امکانات کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک میں سیاسی بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
وزیر اعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی تھیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف خود کریں گی جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خصوصی دعوت پر اس کا حصہ بنایا گیا تھا۔
ایپکس کمیٹی کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں وفاقی وزرا برائے دفاع، آئی ٹی، توانائی کے علاوہ وزرائے مملکت برائے پیٹرولیم اور امور خزانہ شامل تھے۔
ان کے علاوہ صوبائی وزرا برائے زراعت، معدنیات، آئی ٹی، توانائی، امور خزانہ، منصوبہ بندی اور تمام چیف سیکریٹری بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔
تیسری سطح پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں پاکستان فوج کے ایک ڈائریکٹر جنرل، وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی اور کونسل کے سیکریٹری، جو 21 ویں گریڈ کے افسر ہوں گے، شامل تھے۔