ناظم جوکھیو کے قاتل گرفتار نہ ہونے کے خلاف سول سوسائٹی کا احتجاج
ناظم جوکھیو کو گزشتہ برس اکتوبر میں تشدد کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی کے فارم ہائوس پر قتل کیے گئے ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو تاحال گرفتار نہ کیے جانے کے خلاف صوبائی دارالحکومت میں کراچی پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی اور عام شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔
احتجاجی مظاہرے میں مختلف شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو جلد از جلد سزا دی جائے۔
احتجاجی مظاہرے میں قانونی ماہر اور سماجی کارکن جبران ناصر نے بھی شرکت کی۔
مظاہرین نے ناظم جوکھیو کے قاتلوں کی عدم گرفتاری اور ان کے خلاف منظم قانونی کارروائی نہ کیے جانے پر مایوسی اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ، عدالتوں اور وفاقی حکومت سے قاتلوں کے خلاف جلد کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
مظاہرے میں شریک شرکا نے ناظم جوکھیو کو انصاف دلانے کے لیے بینر اٹھا رکھے تھے جب کہ انہوں نے حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
خیال رہے کہ ناظم جوکھیو کی کراچی کے علاقے ملیر میں گزشتہ برس تین اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔
مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
ان کے بہیمانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد عدالت نے بھی نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں مقتول کے ورثا کی جانب سے مقدمہ بھی دائر کروایا گیا تھا۔
مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے ملازموں کو 27 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل میں نامزد کردیا تھا۔
مقتول نے مبینہ طور پر جام اویس کے غیرملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکا تھا اور اس کےنتیجے میں انہیں مبینہ طور پر ٹھٹہ میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کر کے قتل کیا گیا تھا۔
مقدمہ دائر ہونے کے بعد پولیس نے پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو عبوری تفتیشی رپورٹ پیش کی تھی جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دو اراکین اسمبلی اور ان کے غیرملکی مہمانوں سمیت 23 مشتبہ افراد کو چارج شیٹ میں نامزد کیا گیا تھا، تاہم ان کا کردار واضح نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر اصل ملزمان گرفتار نہ ہوئے اور وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ضمانتوں پر بیرون ملک چلے گئے اور پھر ملک میں سیاسی ہلچل مچنے کے بعد مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ نے قاتلوں کو معاف کرنے کی ویڈیو بھی جاری کی تھی۔
مقتول کی بیوہ کی جانب سے قاتلوں کو معاف کیے جانے کی ویڈیو جاری کرنے کے بعد عدالت میں دوسرا چالان پیش کیا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا تھا کہ ناظم جوکھیو کا قتل حادثاتی طور پر ہوا تھا۔
ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں عدالت میں دوسرے چالان پیش ہونے کے بعد سول سوسائٹی نے قاتلوں کی عدم گرفتاری اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے خلاف 19 اپریل کو کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی