کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں مبینہ گینگ ریپ کے واقعے پر ٹوئٹر پر بحث  

لوگوں نے واقعے کی تفتیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا—فوٹو: شٹر اسٹاک 

صوبائی دارالحکومت کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں مبینہ گینگ ریپ کے واقعے پر مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جس میں زیادہ تر لوگوں نے فیکٹری کے اندر ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا دعویٰ کیا جب کہ بعض افراد نے ایسی خبروں کو جھوٹا قرار دیا۔

معروف اینکر و صحافی مبشر حسین زیدی نے  فیکٹری میں ایک خاتون کے مبینہ طور پر 20 افراد کے گینگ ریپ کے واقعے کی خبر سے متعلق ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کے مطابق ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ گارمنٹ فیکٹری میں ریپ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

مبشر زیدی کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا کہ کورنگی کے علاقے میں موجود گارمنٹ فیکٹری کے کچھ ملازمین مبینہ گینگ ریپ سے متعلق افواہیں پھیلا رہے ہیں۔

اینکر نے اپنی ٹوئٹ کے ساتھ فیکٹری میں مبینہ طور پر ہونے والے واقعے کی پوسٹ بھی شیئر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فیکٹری میں 20 افراد نے ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کیا، جس کے بعد متاثرہ خاتون اگلے روز چل بسیں۔

سابق نیوز اینکر اور صحافی ناجیہ اشر نے بھی مذکورہ واقعے سے متعلق اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ فیکٹری گینگ ریپ سے متعلق کوئی بھی مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔

انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ مذکورہ واقعے کی حساسیت کو نظر میں رکھتے ہوئے صرف مستند معلومات ہی شیئر کریں، کیوں کہ جھوٹۓ ریپ واقعات کے کیسز سے اصل واقعات بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ان کی طرح عرب نیوز سے وابستہ صحافی نعمت خان نے بھی  فیکٹری کے واقعے کی ایک ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی پولیس کے مطابق فیکٹری میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، البتہ یہ ایک بلیک میلنگ کا کیس ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ چھیپا رضاکاروں کے مطابق سوشل میڈیا پر جس 35 سالہ خاتون کے ریپ متاثرہ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، اس کی لاش تاحال سرد خانے میں موجود ہے اور وہ نشے کی عادی تھیں۔

انہوں نے لکھا کہ اگرچہ تاحال فیکٹری واقعے سے متعلق مصدقہ معلومات سامنے نہیں آئی مگر اس پر ہزاروں غلط معلومات پر مبنی ٹوئٹس کیے گئے ہیں۔

اسی حوالے سے سندھ میٹرس نے جب معلومات حاصل کی تو کرائم رپورٹرز نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ واقعے کا میسیج یا سوشل میڈیا پوسٹس کم از کم ایک ماہ سے چل رہی ہیں مگر اس متعلق کوئی مصدقہ معلومات نہیں مل رہی۔

رپورٹرز کے مطابق مذکورہ واقعے سے متعلق نہ تو سندھ پولیس تصدیق کرتی ہے اور نہ ہی متاثرہ خاتون کے اہل خانہ کا معلوم ہوتا ہے۔

تاہم دوسری جانب زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس معاملے پر ٹوئٹس کرتے ہوئے کہا کہ اس پر مصدقہ تفتیش ہونی چاہیے۔

لکھاری سارا نوید نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ مذکورہ واقعے کی تفتیش ہونی چاہیے، کیوں کہ سوال تو یہ ہے کہ خواتین کام کی جگہوں پر محفوظ کیوں نہیں؟

انہوں نے لکھا کہ اس واقعے کی تفتیش کرکے ملوث افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے۔

اداکارہ کومل عزیز خان نے بھی واقعے سے متعلق اسٹوری شیئر کی—اسکرین شاٹ

اداکارہ کومل عزیز نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں بھی فیکٹری میں خاتون کے گینگ ریپ سے متعلق پوسٹ شیئر کی، جسے کئی لوگوں نے شیئر کیا۔

دوسری جانب تاحال مذکورہ واقعے پر گارمنٹ کمپنی انتظامیہ سمیت سندھ پولیس کی جانب سے آفیشل کوئی بیان یا وضاحت جاری نہیں کی گئی اور فیکٹری ریپ کیس کا ٹرینڈ ٹوئٹر پر 6 اور 7 ستمبر کو ٹاپ ٹرینڈ رہا۔