صحافی حمید سندھو کا کسم پرسی میں انتقال، کروڑوں فنڈز لینے والی تنظیمیں کہاں ہیں؟

IMG-20250719-WA0000

چند دن قبل صحافی حمید سندھو کسم پرسی کی حالت میں انتقال کر گئے، ان کے اہل خانہ کے پاس میت آبائی گھر کے جانے تک کے پیسے نہ تھے۔

حمید سندھو کا آبائی تعلق پیر جو گوٹھ ضلع خیرپور سے تھا اور وہ کئی سال سے دارالحکومت کراچی میں مقیم تھے۔

ان کی میت آبائی گاؤں بھجوانے کے لیے ان کے ادارے پنھنجی اخبار نے بھی کوئی معاونت نہ کی اور وزارت اطلاعات سندھ نے ان کی میت آبائی گاؤں بھجوائی۔

سوال یہ ہے کہ حکومت سے کروڑوں روپے فنڈز لینے والی صحافیوں کے حقوق کی تنظیمیں کہاں غائب تھیں جب کہ وہ فنڈز بھی صحافیوں کے نام پر وصول کرتی ہیں۔

حمید سندھو ایک نجی اخبار میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ ایک محنتی اور تجربہ کار صحافی تھے، جنہیں فیلڈ میں کام کرتے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ ان کا اچانک اور المناک انتقال نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ دل دہلا دینے والا بھی ہے۔

ان کے انتقال کے بعد کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ حمید سندھی کو ان کے ادارے کی جانب سے سخت رویے اور غیر انسانی سلوک کا سامنا تھا۔ کام کے شدید دباؤ، کم تنخواہ، غیر متوازن اوقات کار، اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے مسائل شاید ان کی صحت پر منفی اثر ڈالنے کا سبب بنے ہوں۔

بدقسمتی سے یہ مسئلہ صرف حمید سندھی تک محدود نہیں۔ صحافت کے میدان میں کئی کارکن روزانہ ایسے غیر پیشہ ورانہ اور استحصالی رویوں کا سامنا کر رہے ہیں، مگر اس پر بات کرنا ایک ممنوعہ موضوع بنا دیا گیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک پلیٹ فارم کے طور پر "دی میڈیا فورم” کے نام سے ایک سندھی فورم قائم کیا گیا، جس سے صحافیوں اور آرٹسٹوں کو امید تھی کہ یہ ان کی آواز بنے گا اور ان کے حقوق کے لیے مؤثر کردار ادا کرے گا۔ مگر افسوس، حمید سندھی کے سانحے کے بعد اس فورم کی جانب سے نہ کوئی مذمتی بیان سامنے آیا، نہ کوئی عملی اقدام۔ یہ خاموشی کئی شکوک کو جنم دیتی ہے: کیا یہ فورم صرف مخصوص مفادات کے لیے قائم کیا گیا ہے؟ کیا یہ عام سندھی میڈیا کارکنان کی حقیقی مدد کے لیے بھی تیار ہے؟

یہ وقت ہے کہ صحافتی برادری اور ذمہ دار ادارے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ صحافی معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتے ہیں، اگر وہ خود غیرمحفوظ ہیں تو سچائی کا دفاع کون کرے گا؟