سندھ میں ڈپریشن کو پاگل پن سے جوڑنے کا رجحان بڑھنے لگا

صوبہ سندھ میں نوجوانوں کی ذہنی صحت کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک انتہائی سنگین اور تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے، صوبے کے بڑے شہر سے لے کر سندھ کے دیہی علاقوں تک نوجوانوں میں ڈپریشن، اینزائٹی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل عام ہوتے جا رہے ہیں۔
آئے روز یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ کسی نوجوان نے ذہنی دباؤ میں آکر خودکشی کر لی — جو معاشرتی رویوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
سندھ میں، خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں، ذہنی بیماری کو اب بھی ایک "پاگل پن” سے جوڑا جاتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان ڈپریشن یا اینزائٹی جیسی بیماری کا شکار ہو تو اکثر اوقات اسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے، یا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے یا اسے بدنام کر دیا جاتا ہے۔
ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے کو شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ جعلی پیروں، عاملوں اور تعویذ گنڈے کرنے والوں کے پاس چلے جاتے ہیں، جو کہ اکثر اوقات نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ مریض کی حالت مزید بگاڑ دیتا ہے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں اگرچہ تھوڑا شعور بڑھا ہے، لیکن اب بھی اکثریت ذہنی صحت کے مسئلے کو چھپاتی ہے۔ دیہی سندھ میں تو صورتحال مزید تشویشناک ہے جہاں ذہنی بیماری کو جادو، آسیب یا جن کا اثر قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، جس سے ان کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ذہنی بیماری بھی دیگر بیماریوں کی طرح ہے جس کا بروقت علاج ممکن ہے، لیکن سندھ میں اس شعبے کے ماہرین کی کمی، آگاہی کا فقدان اور سماجی دباؤ اس مسئلے کو سنگین بناتے جا رہے ہیں۔ صوبہ سندھ میں ذہنی صحت کے حوالے سے ہسپتال، ماہرینِ نفسیات اور کونسلنگ مراکز کی بھی شدید کمی ہے، خاص طور پر اندرونِ سندھ میں یہ سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ہر سال 10 اکتوبر کو "ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے” منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں ذہنی بیماریوں سے متعلق شعور اجاگر کیا جا سکے، مگر سندھ میں اس دن کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ یہاں نہ مہمات چلائی جاتی ہیں، نہ اسکولوں، کالجوں یا میڈیا پر اس حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ میں عوام، خاص طور پر نوجوانوں میں ذہنی صحت سے متعلق شعور پیدا کیا جائے۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، سرکاری ادارے اور NGOs کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ یہ پیغام عام کیا جا سکے کہ ذہنی بیماری کوئی شرمندگی کی بات نہیں، اور نہ ہی یہ پاگل پن کی علامت ہے۔ بروقت علاج اور درست رہنمائی کے ذریعے ایک صحت مند اور متوازن نوجوان نسل تیار کی جا سکتی ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں ایک بہتر اور ترقی یافتہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم ذہنی صحت کو بھی جسمانی صحت جتنا اہم سمجھیں اور نوجوانوں کو یہ حوصلہ دیں کہ وہ بغیر کسی جھجک کے ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔