موسمیاتی تبدیلی اور انڈس ڈیلٹا کی تباہی سے سندھ کی خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر

تحریر: شیما صدیقی
گلوبل کلائمیٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پچھلی 5 دہائیوں میں تقریباً 0.5 تناسب سے درجہ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلنے کے ساتھ آبی بخارات بننے کا عمل بھی تیز ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ بارشیں، سیلاب اور زمین میں نمکیات کا تناسب بگڑ گیا ہے۔ پچھلے 23 سال میں پاکستان میں 9 طوفان آچکے ہیں، جبکہ مون سون کے پیٹرن میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔
دارالحکومت کراچی میں سطح سمندر میں سالانہ (mean average) 1.1 ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے جبکہ مجموعی طور پر انڈس ڈیلٹا میں 4.4 ملی میٹر کے ساتھ یہ اضافہ بہت زیادہ ہے۔
سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر عمران صابر بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلی چار دہائیوں سے گلیشیئر 10 فیصد زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، خاص کر مغربی ہمالیہ کے گلیشیئر۔ کہیں زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب ہیں اور کہیں خشک سالی۔ اس سال بالائی سندھ میں زیادہ اور جنوبی حصوں میں کم بارشیں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے میٹھے پانی کا لیول بھی کم ہوا ہے اور ان موسیماتی تغیر سے سب سے پہلے متاثر وہاں کے بچے اور خواتین ہیں۔
سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر عمران صابر کا کہنا ہے کہ یہاں ایک طرف خوراک اور پانی کی کمی ہے، دوسری طرف ان علاقوں میں وبائی امراض جیسے ملیریا، ٹائیفائیڈ اور جلدی امراض زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق رولر ہیلتھ سینٹر کیٹی بندر بھی کرتا ہے۔ یہ ہیلتھ سینٹر تین سے چار سو کی آبادی کو ابتدائی طبی امداد مہیا کرتا ہے۔ ڈاکٹر جمن کا کہنا ہے کہ زیادہ پانی میں رہنے کی وجہ سے یہاں وبائی اور جلدی امراض عام ہیں۔ لوگ ڈاکٹر کے پاس سب سے آخر میں آتے ہیں۔ عورتوں کا حال بہت ہی برا ہے لیکن یہاں پینا ڈول سے لے کر دیگر بنیادی ادویہ کی شدید قلت نظر آئی۔ لوگ ڈرپس اور انجکشن لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھ رہے تھے۔ اکثر خواتین کمزوری کی شکایت کر رہی تھیں اور ملیریا کے سب سے زیادہ مریض کلینک میں موجود تھے۔
ان کی طرح کیٹی بندر میں واقع الفارابی اسپتال ڈاکٹر شیر شاہ کے زیر نگرانی چل رہا ہے۔ اس پرائیوٹ ادارے کو مڈ وائفری نظام کے تحت چلایا جارہا ہے، لیکن سرجری اور مشکل کیسز کےلیے تین لیڈی ڈاکٹر موجود رہتی ہیں۔ ڈاکٹر سدرہ کا کہنا ہے کہ یہاں کا بنیادی مسئلہ یہ کہ خواتین بہت دور دراز گاؤں اور کھاریوں سے آتی ہیں۔ ڈیلیوری کیسز او پی ڈی کے مقابلے میں کم آتے ہیں اور دائی کے پاس زیادہ جاتی ہیں۔ کیٹی بندر کی اکثریت خون کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں بنیادی تعلیم، صحت اور کھانے پینے کے انداز درست نہیں۔ آدمی ہی نہیں یہاں کی خواتین بھی گٹکا اور ماوا کھاتی ہیں۔ پہلے ہی جسم میں خون نہیں۔ گھر کی خاتون، سب سے کم کھاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ ہائی رسک حاملہ ہوتی ہیں۔ پھر زیادہ خون بہہ جانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
سانپ اور کیڑوں کے کاٹنے کے ساتھ کیٹی بندر کی خواتین بی پی چیک نہیں کراتیں۔ اس لیے یہاں کم عمری میں دل کی بیماریاں عام ہیں۔ پھر تین چار نہیں پندرہویں سولہویں بار کی حاملہ ہمارے پاس آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پری میچور ڈیلیوری عام ہے، یعنی 32۔36 ہفتے میں پیدائش۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 1-5 سال تک کے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔
رولر ہیلتھ سینٹر کیٹی بندر کی انچارج نرس ’’مایا مہشوری‘‘ نے بتایا کہ غیر تربیت یافتہ دائی کو ہائی جین اور اسٹیلائزیشن کا کیا پتا۔ یہاں خواتین کو گھروں سے نکالتے بھی نہیں۔ گھر میں مریں یا جیئیں، بس مردوں کا خرچہ نہ ہو۔ صبح ایک کیس آیا جس میں عورت خون کی شدید کمی کے ساتھ غذائی قلت کا بھی شکار تھی۔ اگر وہ پہلے ہمارے پاس آتی تو شاید اس کی حالت بہتر ہوتی۔ یہ ان کا ساتواں بچہ تھا۔ جیسے تیسے کرکے ڈیلیوری تو ہم نے کرادی۔ ماں کی جب یہ حالت تھی تو سمجھ سکتے ہیں کہ بچہ کس حال میں ہوگا۔ اسے فوراً آکسیجن لگانی پڑی۔ ہمارے پاس سہولیات تھیں اور ہم نے دیں۔ شاید بچہ اور ماں بہتر ہوجائیں لیکن دیر سے آنے اور شدید غذائی قلت کی وجہ سے ماں اور بچے کی صحت شدید متاثر تھی اور آئندہ بھی ہوگی۔
کیٹی بندر کے کھاروچھان کی رہائشی دائی سکینہ نے یہ کام 25 سال کی عمر سے شروع کیا تھا اور اب لگ بھگ 36 سال ہوگئے ہیں۔ اب میرے پاس جو حاملہ آتی ہے انہیں ہرن کا تیل دودھ میں ملا کر پلاتے ہیں۔ دائی سکینہ کے مطابق کچھ ہی کیسز ایسے ہیں جو ان سے حل نہیں ہوپاتے اور حاملہ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس بھی خواتین آخر وقت میں آتی ہیں۔ خواتین اپنے گھریلو حساب کے مطابق انہیں بلاتی ہیں۔ یہ ہی بات شہناز کے شوہر سلیم نے بتائی تھی کہ ہماری دائی ماں پیدائش کے وقت کام کرتی ہے۔ کیٹی بندر میں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں، لہٰذا ساکرو کے سرکاری اسپتال پہنچنا مشکل کام تھا۔
سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر عمران صابر کا کہنا ہے کہ یہاں ایک طرف خوراک اور پانی کی کمی ہے، دوسری طرف ان علاقوں میں وبائی امراض جیسے ملیریا، ٹائیفائیڈ اور جلدی امراض زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق رولر ہیلتھ سینٹر کیٹی بندر بھی کرتا ہے۔ یہ ہیلتھ سینٹر تین سے چار سو کی آبادی کو ابتدائی طبی امداد مہیا کرتا ہے۔ ڈاکٹر جمن کا کہنا ہے کہ زیادہ پانی میں رہنے کی وجہ سے یہاں وبائی اور جلدی امراض عام ہیں۔ لوگ ڈاکٹر کے پاس سب سے آخر میں آتے ہیں۔ عورتوں کا حال بہت ہی برا ہے لیکن یہاں پینا ڈول سے لے کر دیگر بنیادی ادویہ کی شدید قلت نظر آئی۔ لوگ ڈرپس اور انجکشن لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھ رہے تھے۔ اکثر خواتین کمزوری کی شکایت کر رہی تھیں اور ملیریا کے سب سے زیادہ مریض کلینک میں موجود تھے۔
قومی نیوٹریشن سروے 2018 کے مطابق سندھ میں 15 سے 49 سال کی خواتین میں خون کی کمی کی شرح 55 فیصد سے زائد ہے۔ بچوں میں stunting یعنی عمر کے اعتبار سے قد 45.3 کی کمی 50 فیصد تک ہے۔ یہ 5 سال پرنے اعدادو شمار ہیں، اب سوچیے سیلاب کی وجہ سے لوگ کس حال میں ہوں گے۔ اس صورت حال میں گزشتہ سال آنے والے طوفان اور سیلاب کے اثرات سب سے زیادہ خواتین اور بچوں پر پڑے ہیں۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں جبکہ یہاں کے لوگوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں موجود ہے۔ اس کے باوجود ان علاقوں میں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوتا۔
ادارہ شماریات کے مطابق کیٹی بندر کی آبادی 59,699 ہے۔ جس میں سے دیہی خواتین کی تعداد 26,363 ہے، اور 2,068 خواتین کیٹی بندر کے شہری حصے میں رہتی ہیں، جبکہ ایک سے دس سال کے بچوں کی تعداد 6,842 ہے۔ شماریات کے اعداد وشمار یہ بھی کہتے ہیں کہ کیٹی بندر کی 77.43 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جن کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ شہری آبادی زیادہ تر زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ فراہم کردہ چارٹ کے مطابق 1998 میں کُل آبادی 41.410 آبادی میں سے 38.897 دیہی اور شہری آبادی صرف 2.5 فیصد تھی، جبکہ اب شہری آبادی 7.15 فیصد ہے۔ یعنی آبادی شہری حصے کی طرف منتقل ہوئی ہے۔ اور یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر ایکسپریس میں شائع ہوا, اسے یہاں مختصر کرکے شائع کیا گیا، مکمل مضمون کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے