ارشاد رانجھانی قتل کیس کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج ہوگا

ارشاد رانجھانی کے ورثا اور ان کے وکیل نے کہا ہے کہ مقتول کے قتل سے متعلق انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

ارشاد رانجھانی قتل کیس کا فیصلہ دارالحکومت کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 26 اکتوبر کو رحیم شاہ کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں 6 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

تاہم عدالتی فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی مجرم رحیم شاہ کو 26 اکتوبر کو ہی سینٹرل جیل کراچی سے رہا کردیا گیا تھا۔

جیل حکام کا کہنا تھا کہ رحیم شاہ کو 6 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو مکمل ہوگئی لیکن حیران کن طور پر ان کی گرفتاری کو پانچ سال بھی مکمل نہیں ہوئے۔

رحیم شاہ کو فروری 2019 میں ارشاد رانجھانی کے قتل کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، ارشاد کو 8 فروری کو قتل کیا گیا تھا۔
رحیم شاہ کی گرفتاری کو فروری 2023 میں پانچ سال ہوں گے جب کہ عدالت نے انہیں 6 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اگر ان کی گرفتاری سے ہی ان کی سزا گنتی کی جائے تو بھی انہیں جیل میں 6 سال کا عرصہ نہیں گزرا تھا۔
اور اب مقتول کے ورثا اور ان کے وکیل نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

سندھی چینل ٹائم نیوز کے مطابق ارشاد رانجھانی کے ورثا کے وکیل محمد خان شیخ نے عدالتی فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکلین کے ساتھ انصافی ہوئی ہے، اس لیے اے ٹی سی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایمبولینس میں ارشاد رانجھانی زندہ تھے، اس لیے رحیم شاہ پر قتل کا جرم ثابت نہیں ہوا، البتہ ان پر قتل کے ارادے کا جرم ثابت ہونے پر انہیں 6 سال کی سزا سنائی گئی۔

وکیل کے مطابق رحیم شاہ کی قید اور ان کی جانب سے سزا کو معاف کرنے کی اپیلوں کو دیکھتے ہوئے انہیں 6 سال تک جیل میں رہنے سے قبل ہی رہا کردیا گیا اور عدالتی فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی۔

ٹی وی چینل نے اپنی ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ فیصلہ سنائے جانے سے قبل ارشاد رانجھانی کے بھائی اور مذکورہ کیس کے فریادی خالد رانجھانی کو پولیس کی جانب سے گرفتار کرکے تین دن تک غائب رکھا گیا اور عدالتی فیصلے سے دو دن قبل ان کی گرفتاری ظاہر کرکے انہیں جیل بھیجا گیا تھا۔

رپورٹ میں مذکورہ معاملے پر مزید کوئی وضاحت نہی کی گئی۔