تھرکول منصوبے میں صرف 3300 مقامی افراد ملازمین

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تصدیق کی ہے کہ تھرکول منصوبے میں محض 7 فیصد ملازمین مقامی ہیں، جن کی مجموعی تعداد 3303 بنتی ہے۔

تھرکول منصوبہ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے اور اس میں ہزاروں ملکی و غیر ملکی ملازمین کام کرتے ہیں مگر ان ملازمین میں سے صرف 3303 ملازمین کا تعلق صحرائے تھر کے علاقے سے ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے تھر انرجی بلاک ٹو اور تھر کول مائنز ٹو سمیت وہاں بنائے جانے والے نئے پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر مہمانوں کو آگاہی دیتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ تھرکول منصوبے میں سندھ حکومت کے صرف 55 فیصد شیئرز ہیں جب کہ 45 فیصد شیئرز اینگرو کول مائنر کے ہیں، جس کی شراکت داری سے منصوبے پر کام جاری ہے۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ تھرکول منصوبے کے ترقیاتی کام میں 55 خواتین ڈرائیورز ہیں جو کہ مرد حضرات کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ تھرکول منصوبے کے تحت تھری ملازمین کو ہنری تعلیم کے حوالے سے 75 ملین روپے کی اسکالرشپ دی جاتی ہے جب کہ تھر کوئلہ پراجیکٹس کے منافع سے 23 اسکولز قائم کیے گئے ہیں،جن میں4061 طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ تھر کول پراجیکٹ کی بدولت 120 بیڈز پر مشتمل اسپتال قائم کی گئی ہے اور اس کی روزانہ200 کے قریب او پی ڈی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تھرکول پروجیکٹ میں 52 خواتین ٹرک ڈرائیوز ہیں جو ڈمپر چلاتی ہیں جب کہ اسی منصوبے کے تحت 11 خواتین آر او پلانٹس بھی چلاتی ہیں اور تھر میں مجموعی طورپر 17 آر او پلانٹس لگائے گئے ہیں جو 13 دیہاتوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے 31جنوری 2014 کو تھر کول پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور اس وقت تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے وسیع تر روڈ نیٹ ورک ، برجز اور ایئرپورٹ کی ضرورت تھی اور حکومت سندھ نے سخت محنت کے بعد 750 ملین ڈالرز خرچ کرکے تھر کا انفرااسٹرکچر تعمیر کیا۔

انہوں نے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین بلاول بھٹو نے پاور پلانٹ کا افتتاح کر کے آج ایک اور نئی تاریخ رقم کردی، پاکستان کی جیالوجیکل سروے کے مطابق تھر میں 175 بلین ٹن کوئلہ موجود ہے جب کہ تھرکول کے کل 13 بلاکس ہیں، بلاک II اور بلاک I پر کام کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت سندھ اور اینگرو نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 2009 میں بلاک II سے کوئلہ نکالا، سندھ اینگرو کول پراجیکٹ میں سندھ حکومت کے 55 فیصد شیئرز جبکہ45 فیصد شیئر زاینگرو کے ہیں اور 2014 میں سی پیک کے تحت کول مائن پاور پراجیکٹ پر کام شروع کیاگیا جب کہ 2015 میں وفاقی حکومت نے اس پراجیکٹ کے لیے ساویرین گارنٹی جاری کی، جس کے بعد کوئلہ سے 660 میگا واٹ پاور پلانٹ پر کام شروع کیا گیا۔