سندھ حکومت سے سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کی رپورٹ طلب

فائل فوٹو: رائٹرز

سپریم کورٹ آف ہاکستان نے سندھ حکومت سے سیلاب متاثرین کے لیے جاری امدادی سرگرمیوں کی رپورٹ طلب کرلی۔

سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کے علاوہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ (این ڈی ایم اے) اور صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنغ (پی ڈی ایم اے) سے بھی رپورٹ طلب کرلی۔

سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست پر 13 اکتوبر کو سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سندھ حکومت سے سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں کی تفصیلات طلب کرلیں جس پر سندھ حکومت نے جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی۔ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سیلاب انتظامی اختیارات کا نہیں بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے.

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سندھ حکومت کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ وہ عوام کیلئے کام کررہی ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگے جانے پر سیلاب متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں بھی جواب کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا جا رہا ہے، سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ مر رہے ہیں۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جواب آنے میں تاخیر سے کوئی موت نہیں ہو رہی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ ماہ ستمبر کے آخر میں ایڈووکیٹ دلبر خان لغاری نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے جائزہ لینے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

انگریزی اخبار ڈان کے مطابق ایڈوکیٹ دلبر خان لغاری نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ  صوبائی حکومت سیلاب زدگان کو خوراک، کپڑے، ادویات اور مالی مدد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ متاثرہ لوگوں کو اس مشکل سے نکالا جاسکے کیونکہ قدرتی آفات کے پیش نظر حکام اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے نہیں نبھا رہیں۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ سے صوبے کے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو، ریلیف کے کام اور سیلابی پانی کی نکاسی کی تفصیلات طلب کرے۔

انہوں نے عدالت سے حکومت سے امدادی کاموں کے اخراجات کی تفصیلات طلب کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب کی تباہی سے نمٹنے کے لیے جاری کردہ ہدایات بھی طلب کرنے کی درخواست کی تھی۔

علاوہ ازیں رواں ماہ اکتوبر کے آغاز میں سندھ ہائی کورٹ میں بھی سندھ حکومت کے خلاف سیلاب متاثرین کی مدد نہ کرنے اور انتظامی نااہلی کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ میں سینئر وکیل ممتاز لاشاری ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں کہا گیا تھا کہ گلوبل وارننگ کے باوجود وفاقی اور سندھ حکومت نے بارشوں اور سیلاب سے نمٹنے کے لئے کوئی انتظامات نہیں کئے‘ بارشوں کے پانی کے قدرتی راستوںپر قبضوں کے باعث تباہی آئی ہے‘ سیلاب متاثرین بے یارو مددگار ہیں ‘ان کی مدد کے نام پر بیوقوف بنایا جا رہاہے۔

روزنامہ جنگ کے مطابق درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت سے امدادی کاموں سے متعلق پوچھا جائے

بعد ازاں عدالتی احکامات پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے متاثرین سیلاب کی مدد کے حوالے سے رپورٹ پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ حکومتی اقدامات سے تمام لوگ مطمئن ہیں‘

حکومتی رپورٹ پر وکیل ممتاز لاشاری نے کہا تھا کہ حقیقی صورتحال اس کے برعکس ہے ‘سندھ میں چند مقامات کے علاوہ بیشتر علاقوں میں متاثرین بے یارو مددگار ہیں‘ کھلے آسمانوں تلے پڑے ہیں ان کی کوئی امداد نہیں کی جارہی۔

درخواست گزار وکیل کے ریمارکس کے بعد عدالت نے حکومتی رپورٹ مسترد کرکے کراچی کے علاوہ سندھ بھر کے تمام اضلاع کے سیشن ججز کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع کا دورہ کریں اور متاثرین کو راشن کی فراہمی سمیت دیگر امداد کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرائیں

علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ نے جامشورو کے رہائشی مشتاق علی شورو اور اعجاز حسین جتوئی کی جانب سے سیلاب متاثرین کے فنڈز میں کرپشن‘ متاثرین کو امداد نہ دیئے جانے کے خلاف دائر درخواست پر عدالتی احکامات کے باوجود چیئرمین این ڈی ایم اے کے پیش نہ ہونے پر برہمی کااظہار بھی کیا تھا اور انہیں 21 اکتوبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔