سانحہ مچھر کالونی: مزید 15 ملزمان ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت(اے ٹی سی) نے مچھر کالونی میں اغوا کے خوف پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے دو ٹیلی کام ملازمین کے قتل کے حوالے سے گرفتار مزید 15ملزمان کو تفتیش کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
تفتیشی افسر نے 15 ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا اور تحقیقات کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
تفتیشی افسر نے ابو کلام، محمد رفیق، عمران خان، محمد یوسف، عبدالمناف، صدیق، عبداللہ، محمد شیراز، زین العابدین، جاوید، ربیع الاسلام، عطا اللہ عرف اختر حسین، علی حسین، محمد حسن اور اعجاز کو عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوا کہ یہ لوگ متاثرین کو تشدد کرنے میں شامل ہیں۔
دیگر مشتبہ ملزمان پہلے ہی ریمانڈ پر زیر حراست ہیں جن میں امین، رحمت اللہ، جان عالم، عمران، بلال، منان، نور الحق، نور الاسلام، احمد رضا، شفیق، حسین، علی حسین، زبیر اور شریف عرف شریفو شامل ہیں۔
مچھر کالونی کے علاقہ مکینیوں نے ٹھٹہ کے انجنیئر ایمن جاوید اور نوشہروفیروز کے اسحٰق مہر کو 28 اکتوبر کو تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا، پولیس کے مطابق انہیں اغوا کار سمجھ کر علاقہ مکینوں نے ہلاک کیا۔
دونوں افراد مچھر کالونی میں انٹینا چیک کرنے گئے تھے کہ ایک بچے سے راستہ معلوم کرنے پر لوگوں نے انہیں اغوا کار سمجھ کر ان پر حملہ کردیا تھا۔
پولیس کے مطابق دونوں پر 500 سے 600 افراد نے حملہ کیا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔
بعد ازاں مقتولین کے ورثا کی فریاد پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا، جس میں 200 سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے 29 اور 30 اکتوبر کو مچھر کالونی میں آپریشن کرتے ہوئے 40 افراد کو گرفتار بھی کرلیا تھا، جس میں سے بعض کو پولیس نے بعد ازاں رہا کردیا تھا۔
عینی شاہدین کے طور پر دو پولیس اہلکاروں نے اب تک واقعے کے 4 مشتبہ افراد کو شناخت کر لیا ہے، جن میں محمد فاروق، ربیع الاسلام، فیصان اور غفور شامل ہیں۔
دیگر مشتبہ ملزمان پہلے ہی ریمانڈ پر زیر حراست ہیں جن میں امین، رحمت اللہ، جان عالم، عمران، بلال، منان، نور الحق، نور الاسلام، احمد رضا، شفیق، حسین، علی حسین، زبیر اور شریف عرف شریفو شامل ہیں۔
واضح رہے کہ مقتول محمد اسحٰق کے چچا محمد یعقوب کی شکایت پر ڈاکس پولیس اسٹیشن میں 200 سے 250 افراد کے خلاف مقدمہ درجہ کیا گیا ہے۔
مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل)، دفعہ 147 (فساد کی سزا)، دفعہ 148 (فساد، مہلک ہتھیاروں سے لیس)، دفعہ 149 (ایک ہی جرم کے لیے غیر قانونی طور پر جمع ہر شخص قصوروار)، دفعہ 427 (شرارت جس سے 50 روپے کا نقصان ہونا)، دفعہ 435 (شرارت کرکے 100 روپے کے نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ لگانا)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کرنے کی سزا) شامل کی گئی ہیں۔