شکارپور: سابق ارکان اسمبلیز کی سربراہی میں جرگہ، عدالت نے رپورٹ طلب کرلی

شمالی سندھ کے ضلع شکارپور میں بااثر وڈیرے اور سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی رہائش گاہ پر ہونے والے جرگے کا مقامی عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) شکارپور سے رپورٹ طلب کرلی۔

شکاپور میں ایک روز قبل ابراہیم جتوئی کی رہائش گاہ پر جتوئی قبیلے کی دو گروپوں تیغانی اور بجارانی میں 30 سال سے جاری قبائلی تصادم کا جرگہ ہوا تھا۔

جرگے میں سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی اور مہر قبیلے کے سردار غوث بخش مہر، سابق صوبائی وزیر امتیاز شیخ، معظم عباسی اور قومپرست رہنما ریاض چانڈیو نے شرکت کی تھی۔

سندھی ٹی وی چینل ٹائم نیوز کے مطابق جرگے کے دوران دونوں قبائل کے درمیان صلح کروایا گیا اور مجموعی طور پر دونوں گروپوں پر 6 کروڑ 61 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

جرگے کے تحت تیغانی گروپ کے اوپر مجموعی طور پر 2 کروڑ 99 لاکھ روپے جب کہ بجارانی گروپ پر 2 کروڑ 72 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

جرگے میں دونوں قبائل کے 46 خون ثابت ہوئے اور قتل ہونے والے ہر مرد کے خون کی قیمت 15 لاکھ جب کہ خاتون کی قیمت 30 لاکھ روپے مقرر کی گئی اور صلح کے بعد جھگڑے میں پہل کرنے والے گروپ پر اب 50 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

جرگے کے تحت جرمانے کی رقم قتل ہونے والے افراد کے ورثا کو دی جائے گی اور جرمانے کی رقم دونوں قبائل مجموعی طور پر اپنی برادری سے جمع کرکے مقتولین کے ورثا کو دیں گے۔

مذکورہ جرگہ ہونے کے بعد شکارپور کی عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی سے رپورٹ طلب کرلی۔

سیشن جج منومل کھگیجا نے جرگے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی شکارپور خالد مصطفیٰ کورائی سے رپورٹ طلب کی اور حکم دیا کہ تفصیلی رپورٹ تین دن کے اندر پیش کی جائے۔

عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے اپنے حکم میں لکھا کہ سندھ ہائی کورٹ 2018 میں بھی صوبے میں ہونے والے تمام جرگوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے اور واضح احکامات دیے جا چکے ہیں کہ جرگے کرنے والوں کے خلاف پولیس سخت ایکشن لے گی اور جرگے کرنے والوں کے خلاف مقدمات دائر کرکے انہیں قانون کے کٹہڑے میں لایا جائے گا۔

عدالتی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ پولیس کو ایسے جرگوں کو رکوانے میں کردار ادا کرنے کی ہدایات دے چکی ہے۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ابتدائی طور پر 2005 میں جرگوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پولیس کو حکم دیا تھا کہ جرگے کرنے والے وڈیروں اور سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سندھ ہائی کورٹ مختلف مواقع پر اپنے فیصلے کو برقرار رکھتی آئی ہے جب کہ 2018 میں سپریم کورٹ نے بھی ایسے جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا، تاہم اس باوجود سندھ بھر میں جرگے جاری ہیں۔

مذکورہ جرگوں میں سردار اور وڈیرے جج کی طرح تمام فریقین کی باتیں سننے کے بعد اپنا فیصلہ اور حکم سناتے ہیں اور تمام فریقین ان کے حکم کو ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔

بعض اوقات جرگے انتہائی سخت فیصلے بھی دیتے ہیں، جن سے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، تاہم عام طور پر سندھ بھر میں مقامی لوگ قبائلی تصادم یا دیگر مسائل میں صلح کے لیے جرگوں کو فوقیت دیتے ہیں۔