دریائے سندھ کی بحالی کا منصوبہ لونگ انڈس کیا ہے؟

تحریر: شبینہ فراز                           

وزارت موسمیاتی تبدیلی، حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ(یو این)کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تعاون سے دریائے سندھ کے پانی اور وسائل کی حفاظت کے لیے لونگ انڈس (Living Indus) نامی منصوبہ 2022 میں وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا۔

مذکورہ 15 سالہ منصوبے میں 25 ایسے کلیدی اقدامات کی سفارش کی گئی ہے جن پر عملدرآمد سے دریائے سندھ کا پانی، اس کے وسائل اور اس پر انحصار کرتی آبادی محفوظ ہو سکے گی۔

اس منصوبے پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق پاکستان کو اگر محفوظ کرنا ہے تو دریا ئے سندھ اور اس کے وسائل کو محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ دریائے سندھ اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کی اہمیت کو صرف زراعت سے جوڑنا ٹھیک نہیں یہ اس سے زیادہ کا معاملہ ہے کیونکہ معیشت کا تین چوتھائی حصہ دریائے سندھ کے پانی پر ہی انحصار کرتا ہے۔

دریا کوصنعتی اور زرعی فضلے اور پلاسٹک کی آلودگی سے پاک رکھنا بھی لونگ انڈس منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ مختصر یہ کہ منصوبے کے تحت صرف دریا کے پانی ہی نہیں بلکہ پورے دریائی ماحولیاتی نظام کی بحالی پر کام کیا جائے گا کیوں کہ دریا کا صحت مند ماحولیاتی نظام ہی پائیدار ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

سابق وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کے ایک بیان کے مطابق ’لونگ انڈس‘ منصوبے کے کئی حصے ہیں اور سرمایہ کار اپنی مرضی کے حصے کا انتخاب کر کے کام کر سکتے ہیں۔

شیری رحمان کے مطابق مجموعی طور پر اس پروگرام کے 25 منصوبوں پر 11-17 ارب امریکی ڈالر لاگت آئے گی، جن میں سے 15 منصوبے سیلاب کے انتظام سے متعلق ہیں۔

اس منصوبے میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح دریائے سندھ کوایک زندہ وجود یا Living entity قرار دے کر اس کے حقوق مقرر کیے جائیں۔

نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، برازیل، پیرو، کینیڈا، ایکواڈر، بولیویا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور انڈیا بھی اپنے دریاﺅں کی حفاظت کے لیے ایسے ہی اقدامات کرچکے ہیں۔

اس منصوبے کی صوبائی کوآرڈینیٹر فضلدا نبیل کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ چین کے ینگز (Yangtze River) ریور پروٹیکشن لا اورانڈیا کی گنگا ریور اتھارٹی کی طرح ’انڈس پروٹیکشن ایکٹ‘ تشکیل دیا جا سکے تاکہ دریائے سندھ کے تمام معاملات اسی کے تحت طے کیے جا سکیں۔

’مثلاً دریا کے پانی کی تقسیم، اس کی مجموعی انتظام کاری، زمین کا استعمال، وسائل کا استعمال اور دریا پر کسی قسم کی تعمیرات اور دریا کا مجموعی ماحولیاتی نظام بشمول اس کی آبی حیات محفوظ اور بحال ہو سکے۔‘

دریائے سندھ پاکستان کی شہہ رگ ہے کیونکہ پاکستان کی تقریباً 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمیوں کا انحصار اسی دریا کے پانی پر ہے۔

ملک کی 80 فیصد سے زیادہ قابل کاشت زمین دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور ملک کے 10 میں سے 9 بڑے شہر دریا کے 50 کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔

موئنجو دڑو کی تہذیب کے خاتمے کی وجوہات میں ماہرین کا خیال ہے کہ شاید انڈس اور ہاکڑو دریا نے اپنا پاٹ بدل لیا تھا لہذا پانی کی کمی نے ان شہروں کی معیشت تباہ کر دی اور زندگی یہاں سے روٹھ گئی۔

دیو مالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی تقریبا 3,180 کلومیٹر ہے جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 کلومیٹر دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔

یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ’دم چک‘ سے لداخ میں داخل ہو جاتا ہے۔

لداخ میں اسے ’سنگھے کھب‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سنگھے کا مطلب ہے ’شیر‘ اور کھب کا مطلب ہے ’منہ‘۔

پاکستان بھر میں اس دریا کے مختلف نام ہیں۔ یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوشحالی انڈیلتا گزرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکر گزاری سے مختلف نام دیتے ہیںG

مثلا پشتو میں اسے’ابا سین‘ یعنی دریاﺅں کا باپ، سندھ میں اسے ’مہران‘ اور ’سندھو ندی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

لفظ ’سندھو‘ سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ’سیند‘ پر ہے اور جس کے معنی ’بہنے‘ کے ہیں لیکن آج کوٹری بیراج پر کھڑے ہو کر اس سدا بہنے والے دریائے سندھ کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

یہاں سال کے آٹھ مہینے ریت اڑ رہی ہوتی ہے اور دریا کے پاٹ میں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔

دنیا کے بڑے دریاﺅں میں نیل اوردریائے سندھ وہ دریا ہیں جو اپنے پانی کے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اورزرخیز مٹی لاتے ہیں لیکن دریائے سندھ کے پانی میں ریت اورمٹی کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

برطانوی گزٹ کے مطابق 1873 تک دریا کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی نے تقریباً 97 مربع میل ڈیلٹا کی نئی زمین بنائی تھی۔

………………………………………

یہ مضمون بی بی سی اردو میں شائع طویل مضمون سے اخذ ہے۔ مکمل مضمون کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے