سندھ بینک کی ملازمت چھوڑ کر آن لائن فوڈ کا کاروبار کرنے والی کراچی کی پارسی خاتون

سندھ کی دھرتی ویسے بھی کثیرالثقافت ہے اور اس کی جھلک دارالحکومت کراچی میں عیاں دکھائی دیتی ہے، جہاں مسلمان، مسیحی، ہندو، پارسی، سکھ اور احمدیوں سمیت دیگر فرقوں کے پیروکار جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔

سندھ کے دارالحکومت کو کھانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، جہاں جتنے مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بستے ہیں، اتنے ہی اقسام کے ذائقہ دار کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔

کراچی کے متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں کھانوں کے لیے فوڈ اسٹریٹس مختص ہیں جب کہ شہر کے اولڈ ایریاز یعنی صدر، برنس روڈ اور کھارادر میں تو کھانوں کے ہوٹل جا بجا دکھائی دیتے ہیں لیکن گزشتہ چند سال سے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی آن لائن فوڈ کا کاروبار بڑھتا نظر آ رہا ہے۔

ایسے ہی آن لائن فوڈز میں ’گھر سے‘ نامی پارسی کھانوں کا مرکز بھی ہے، جسے ایک پارسی خاتون چلاتی ہیں جنہوں نے سندھ بینک کی ملازمت چھوڑ کر کھانوں کا کاروبار کیا۔

پارسی خاتون گلبار کاؤسجی نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے سندھ بینک میں ملازمت کرتی تھیں لیکن وہ نوکری چھوڑ کر انہوں نے گھر سے ہی کھانے بنا کر انہیں آن لائن فروخت کرنا شروع کیا۔

ان کے مطابق ان کی بیٹی کی خواہش تھی کہ وہ کھانوں کا ہوٹل بنائیں لیکن پھر انہوں نے مل کر گھر سے ہی آن لائن کھانوں کا کام شروع کیا اور انہیں کم عرصے میں بہت پذیرائی ملی۔

گلنار کاؤسجی نے بتایا کہ ان کی والدہ بہت اچھی پینٹر اور تعلیم دان تھیں جن کی طالبات میں سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو بھی شامل تھیں۔

گلنار کاؤسجی کے مطابق وہ خصوصی طور پر پارسی کھانے بناتی ہیں اور حیران کن طور پر مسلمانوں کے ان کے کھانے سب سے زیادہ پسند ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں بسنے والے پارسی افراد اپنے گھروں میں خود کھانے بناتے ہیں، اس لیے وہ ان سے کھانے نہیں منگواتے لیکن مسلمان ان سے پارسیوں کے کھانے زیادہ منگواتے ہیں۔

گلنار کاؤسجی نے بتایا کہ ان کی سب سے مقبول ڈشز میں پاترانی مچھی اور دھنسک ہیں جو کہ خالصتا پارسی کھانے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ پارسی کھانوں کو خصوصی تقریبات کے لیے بھی منگواتے ہیں جب کہ کچھ افراد اپنے زائد العمر اہل خانہ کے لیے بھی ان سے خصوصی طور پر کھانے منگواتے ہیں۔

گلنار کاؤسجی نے بتایا کہ ان کی پیدائش یہیں پاکستان میں ہوئی تھی لیکن ان کے آباؤ و اجداد ایران سے متحدہ ہندوستان میں آئے تھے اور پھر بعض پارسی پاکستان چلے آئے۔

انہوں نے پارسیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بزرگوں نے کبھی مذہب کی تبدیلی کو قبول نہیں کیا لیکن ساتھ ہی وہ یہاں موجود ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان پلے بڑھے ہیں، اس لیے وہ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں لیکن ان کے مذاہب کے لوگوں نے اگر باہر کی کمیونٹی سے بھی شادی کی تو بھی پارسیوں نے مذہب تبدیل نہیں کیا۔