سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے چینی کمپنی چائناریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن (سی آر سی سی)بنائے گی۔

لیکن آخر یہ کراچی سرکلر ریلوے کیا ہے جس کا ہر سال نام سننے کو ملتا ہے لیکن آج تک اس کی کوئی شکل سامنے نہیں آ سکی۔

کراچی سرکلر ریلوے کے نام سے ابتدائی منصوبہ 1969 میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں۔

مذکورہ سہولت سے اس وقت سالانہ ساٹھ لاکھ افراد فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس سروس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور 1970 سے 1980 تک کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں۔ ان میں سے80 ٹرینیں مین ٹریک پر جبکہ 24 ٹرینیں لوکل لُوپ ٹریک پر چلا کرتی تھیں ۔

پھر 1990 کی دہائی کے آغاز سے بعض وجوہات کی بنا پر ریلوے کو ہونے والے مالی نقصانات کے باعث کئی ٹرینوں کو بند کر دیا گیا۔ ناقدین کے مطابق اس کی وجہ نہ صرف ایسے افراد کو ریلوے کی وزارت دینا تھا جو خود ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھے بلکہ کراچی کی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کی طرف سے رشوت اور دباؤ کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے عوامی بھلائی کے اس منصوبے کو ناکام کر دیا گیا اور آخر کار 1999 میں حکومت نے مکمل طور پر اس سروس کو بند کر دیا۔

تاہم 2005 میں جاپان کے اشتراک سے کراچی سرکلر ریلوے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس منصوبے کے لیے جاپان نے دو ارب 40 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی بھی پیشکش کی۔ منصوبے کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کے 50 کلومیٹر طویل ٹریک نے شہر کے مختلف اہم حصوں اور شاہراہوں کو ملانا تھا۔

شیڈول کے مطابق اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2010ء میں کیا جانا تھا اور اس کی تکمیل 2014 میں ہونا تھی۔ ایک بار پھر یہ منصوبہ بعض وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہوتا چلا گیا جو اب تک زیر التو
ہے۔

سال 2014 سے اب تک سندھ میں بننے والی تمام حکومتوں نے جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں رہیں انہوں نے اس منصوبے کی ہر بار منظوری دی اور اس کے لیے بجٹ بھی مختص کیا لیکن سرکلر ریلوے نہیں بن پایا۔

مذکورہ منصوبہ 2005 میں 40 کروڑ ڈالر میں بننا تھا جس کے اب اخراجات 210 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں اور ہر گزرتے دن کراچی سرکلر ریلوے کی اہمیت اور ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔