سکھراور لاڑکانہ ڈویژن میں خواتین صحافیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر

شمالی سندھ کی دونوں ڈویژن یعنی سکھر اور لاڑکانہ میں مرد صحافیوں کے مقابلے خواتین صحافیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور مجموعی طور پر 8 اضلاع میں صرف 4 ورکنگ جرنلسٹ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کی 2023 کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی ہے، جس میں سے 48 فیصد خواتین ہیں، یعنی 65 لاکھ خواتین ہیں۔

دونوں ڈویژنز، سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، گھوٹکی، شکارپور، قمبر ایٹ شہداد کوٹ، جیکب آباد اور کشمور ایٹ کندھ کوٹ اضلاع پر مشتمل ہیں اور دونوں ڈویژنز پسماندگی، شرح تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بھی پیچھے ہیں جب کہ وہاں قبائلی تصادم اور دیگر فرسودہ روایات نے بھی سماجی زندگی کو مفلوج بنا رکھا ہے۔

سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں جہاں درجنوں مرد صحافی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہاں صرف زیادہ سے زیادہ 4 ورکنگ فیمیل جرنلسٹ نظر آتی ہیں اور ان کا تعلق بھی علاقے کے سب سے بڑے شہر سکھر سے ہے۔

شمالی سندھ میں خواتین صحافیوں کے نہ ہونے سے متعلق ویب سائٹ نیا دور شائع صحافی حضور بخش منگی کی اسٹوری کے مطابق سات سال قبل سکھر پریس کلب میں 13 خواتین سمیت 172 جرنلسٹ تھے۔ تنخواہ نہ ملنے کے باعث کچھ فی میل صحافی سکھر سے کراچی شفٹ ہو گئیں جن میں نومیتا گل اور سیرت آسیہ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تین فی میل جرنلسٹس نے شادی کرلی اور صحافتی دنیا سے الگ ہو گئیں۔ اس وقت سکھر پریس کلب میں سحرش کوکھر اے آر وائی نیوز، کرن مرزا ڈی ڈبلیو، لائبہ این ٹی این، کلثوم اردو پوائنٹ، صبا بھٹی نیوز ون اور فری لانسر زبیدہ کنول کام کر رہی ہیں جو کہ پریس کلب سکھر کی اراکین ہیں۔ سحرش کھوکھر فنانس سیکریٹری، کرن مرزا ایگزیکٹو ممبر کے عہدوں پر فائز ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بینظیر حکومت دور 1992 سے لے کر پرویز مشرف کے دور تک ملک کے دیگر شہروں کی طرح سندھ کی خواتین کو جاب کرنے کے پر قائل کیا گیا۔ اس وقت اسمبلیوں سے لے کر دیگر شعبوں میں کافی خواتین آنے لگی تھیں مگر واحد شعبہ صحافت ہے جس میں شمالی سندھ کے 8 اضلاع میں خواتین فیلڈ رپورٹرز کی تعداد صفر ہے، 30 فیصد معاشرتی مجبوری ہے جبکہ 70 فیصد تنخواہوں کی عدم فراہمی کے باعث عورتیں صحافت کے پیشے سے عدم دلچسپی رکھتی ہیں۔

سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں خواتین کی تعداد مجموعی آبادی تقریبا 45 فیصد حصہ بنتی ہے مگر افسوس کہ ان اضلاع کی خواتین صحافت کے شعبے میں صفر ہیں جبکہ دیگر شعبہ جات ایجوکیشن 22 فیصد، ہیلتھ اور نجی این اوز میں 20 فیصد خواتین نوکریاں کر رہی ہیں۔ اس وقت سکھر، خیرپور اور لاڑکانہ میں مجموعی طور پر 9 خاتون صحافی ہیں۔

شمالی سندھ کی واحد سب سے بڑی یونیورسٹی شاہ عبداللطیف کے کنٹرولرسید مہدی شاہ کے مطابق شاہ لطیف یونیورسٹی میں ماس کمیونیکشن کا سیشن تاحال شروع نہیں کیا گیا ہے جبکہ ایم اے جرنلزم کے لیے سال 2022 میں 55 طلبہ و طالبات نے ایڈمیشن لیا ہے جن میں 18 لڑکیاں جبکہ 37 لڑکے ہیں جو ریگولر کلاسز لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم اے جرنلزم کی ڈگری کے لیے کم ہی طلبہ اپلائی کر رہے ہیں یا تو پھر کچھ ایسے طلبہ بھی ہیں جو آن لائن کلاسز اٹینڈ کرتے ہیں۔ سال 2022 کے طلبہ کے امتحانات کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ دسمبر کے مہینے میں امتحانات ہوں گے۔ سلپوں کی تقسیم کا مرحلہ چل رہا ہے۔ اس سے قبل سال 2021 میں ایم اے جرنلزم سیشن کے لیے تعداد 36 تھی جن میں 11 لڑکیاں شامل تھیں جو امتحانات کا مرحلہ مکمل کر کے ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں جبکہ اس سال ایڈمیشن میں اضافہ ہوا ہے۔

شمالی اضلاع میں خواتین صحافیوں کی کم تعداد پر جمیلاں منگی، ممبر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان خیرپور کا کہنا تھا بہت سارے ایسے ایشوز ہیں جن میں دارالامان، لیڈی جیل خانہ جات، ہسپتالوں میں زچگی وارڈوں کی عورتوں کے کئی مسائل ہوتے ہیں جو اکثر عورتیں مرد رپورٹر کے ساتھ شیئر نہیں کر پاتیں، وہاں پر عورت رپورٹر ہو گی تو کئی سٹوریز نکل آئیں گی۔

ان کے مطابق انہوں نے پانچ سال قبل خیرپور یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم کیا تھا میرا خود شوق تھا کہ میں صحافی بنوں مگر میرے گھر والے ہرگز راضی نہیں ہوئے۔ وہ کہتے تھے کہ کوئی بھی جاب کر لو مگر جرنلسٹ نہ بنو۔ اگر میری سپورٹ میرے ماں باپ کرتے تو شاید آج میں ایک ادارے سے منسلک ہوتی۔ وجہ یہ تھی کہ صحافی کو زیادہ خطرے ہوتے ہیں، جانی اور جسمانی۔ اس کے علاوہ عدم تحفظات ہونے کی اہم وجہ ہے جس سے اہل خانہ نہیں چاہتے کہ اپنی بیٹی کو اس خطرناک کام سے جڑنے دیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہراسانی کے واقعات کا بھی خوف ہوتا ہے مگر اکثر ماحول بہتر ہو گیا ہے۔ عورتوں کو جاب کی اشد ضرورت ہے وہ نکلنا چاہتی ہیں انہیں ادارے سپورٹ کریں تو صحافتی پیشے میں بیشتر عورتیں کام کریں گی۔ حیدرآباد کے بعد سکھر میں 6، لاڑکانہ 1 جبکہ خیرپور میں بھی ایک خاتون رپورٹر ہے جو فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔