سکھر میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول، مقامی ادیب، فنکار، لکھاری نظر انداز

شمالی سندھ کے سب سے بڑے شہر سکھر کی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) یونیورسٹی میں آرٹس کونسل آف پاکستان (اے سی پی) کراچی اور سکھر کی جانب سے پہلی بار پاکستان لٹریچر فیسٹیول (پی ایل ایف) کا انعقاد کیا گیا، جس میں حیران کن طور پر مقامی لکھاریوں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں سمیت ابھرتے ہوئے کارکنان کو نظر انداز کیا گیا۔

دو روزہ فیسٹیول کا آغاز 28 اکتوبر کو ہوا اور افتتاحی تقریب میں نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی شرکت کی اور انہوں نے ایونٹ کے انعقاد کو خوش آئندہ بھی قرار دیا تھا۔

سکھرمیں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد

دو روزہ فیسٹیول کے دوران ادبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور سیاحتی پروگرامات منعقد کیے گئے اور میں پاکستان بھر کی معروف شخصیات نے بھی شرکت کی۔

ملک کے نامور صحافیوں، لکھاریوں، شاعروں اور فنکاروں نے بھی پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کی، تاہم حیران کن طور پر مقامی صحافیوں، لکھاریوں، شاعروں، ادیبوں، سیاست دانوں اور فنکاروں کو نظر انداز کیا گیا۔

سندھ میٹزر کو متعدد صحافیوں، سماجی کارکنان، شاعروں اور لکھاریوں نے ذاتی طور پر شکایت کی کہ انہیں مدعو نہیں کیا گیا اور وہ حیران ہیں کہ کس طرح انتطامیہ نے مقامی افراد کو نظر انداز کیا۔

دو روزہ فیسٹیول میں اگرچہ سندھی صحافیوں، سیاست دانوں، لکھاریوں اور فنکاروں کو بھی پروگرام کا حصہ بنایا گیا لیکن ان میں زیادہ تر ایسے فنکار، صحافی اور سیاست دان شامل تھے، جنہیں عام طور پر تقریبا ہر فیسٹیول کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں مقامی عورت شاعراؤں کو بھی مدعو نہیں کیا گیا جب کہ فیسٹیول کے نصف سے زائد پروگرام قومی زبان اردو میں چلائے گئے جب کہ سندھی زبان کے پروگرامات کو بھی محدود رکھا گیا۔

پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا سکھر میں انعقاد شمالی سندھ کے لوگوں کے لیے بہت اچھا ثابت ہوا لیکن فیسٹیول میں مقامی شخصیات کو مدعو نہ کیے جانے پر بہت سارے لوگ مایوس بھی دکھائی دیے۔

علاوہ ازیں فیسٹیول میں خصوصی طور پر سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے دیرینہ سماجی مسائل پر بھی پروگرامات کم رکھے گئے۔