تحفظ کے قوانین ہونے کے باوجود سندھ صحافیوں کے لیے بدترین صوبہ قرار
صحافیوں اور میڈیا کی آزادی اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنطیم فریڈم نیٹ ورک نے کہا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے قوانین بنائے جانے کے باوجود سندھ جرنلسٹس کی سیفٹی کے حوالے سے بدترین صوبہ رہا۔
فریڈم نیٹ ورک کی ’ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ کے مطابق سندھ ملک کا وہ واحد اور پہلا صوبہ ہے، جہاں صحافیوں کے تحفظ کے لیے 2021 میں اسمبلی سے بل پاس کیا گیا، جسے بعد ازاں قانون بھی بنایا گیا لیکن اس باوجود سندھ میں صحافیوں پر حملوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی اسمبلی نے بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل پاس کرانے کے بعد وفاقی حکومت نے اسے قانون بھی بنایا لیکن بدقسمتی سے ملک میں نہ تو وفاقی قانون پر عمل ہوتا نظر آیا اور نہ ہی سندھ کے قانون پر عمل درآمد ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کرنے والا واحد ملک ہے، اس کے باوجود پاکستانی ریاست صحافیوں کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے اس قانونی سازی کو استعمال کرنے میں ناکام رہی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 برسں میں پاکستان میں صحافیوں کے اغوا، تشدد، بغاوت کے غیر ثابت شدہ الزامات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔
سندھ میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ اَدر میڈیا پریکٹشنرز کمیشن قائم
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق سندھ اور پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین بننے کے بعد اگست 2021 سے اگست 2023 کے درمیان ملک میں مجموعی طور پر صحافیوں پر حملے، اغوا اور ان کے قتل کے 248 کیسز رپورٹ ہوئے، جس میں سے 93 کیسز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جب کہ 56 کیسز صوبہ سندھ میں رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں صحافیوں پر حملوں، تشدد اور قتل کے واقعات حوالے سے اسلام آباد کے بعد سندھ کو ملک کا بدترین صوبہ قرار دیا گیا اور بتایا گیا کہ "سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ دیگر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021” پاس ہونے کے بعد ہی ناظم جوکھیو، جان محمد مہر، نریش کمار، غلام اصغر کھنڈ اور اشتیار سدھیرو کے قتل کے واقعات رونما ہوئے۔
رپورٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ بدقسمتی سے صحافیوں کے خلاف زیادہ تر حملے ان خطوں میں ہوئے جہاں ان کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی گئی۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے سندھ میں قوانین ہونے کے باوجود صحافیوں کے قتل، ان پر حملوں اور انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی سیفٹی کے لیے بنائے گئے کمیشن کو فعال کرکے صحافیوں کو حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے سندھ میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ اَدر میڈیا پریکٹشنرز کمیشن (سی پی جے ایم پی) کے قیام پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کم وسائل کے باوجود کمیشن کی جانب سے صحافیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھانے پر چیئرپرسن کی تعریفیں بھی کیں،تاہم ساتھ ہی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کمیشن کو خود مختار بنانے کے لیے اسے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
خیال رہے کہ سندھ حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم کیا تھا، کمیشن کے ارکان کی تعداد 14 ہے، جس میں سےایک چیئرمین، چار ارکان حکومتی نمائندے جب کہ 9 ارکان غیر سرکاری صحافتی تنظیموں اور اداروں سے لیے گئے ہیں۔
کمیشن کے قیام سے قبل نومبر2022 میں سندھ کابینہ نے کمیشن کے قیام کی منظوری دی تھی جب کہ سندھ اسمبلی نے اگست 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کیا تھا۔
پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ اَدر میڈیا پریکٹشنرز کمیشن قائم ہونے کے بعد سندھ ملک کا وہ پہلا صوبہ بن گیا، جہاں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں سندھ جنوبی ایشیائی ممالک کا بھی وہ پہلا صوبہ بن گیا تھا، جہاں میڈیا ورکرز کے تحفظ کے لیے خصوصی کمیشن قائم کیا گیا ہے۔
اس وقت پاکستان سمیت بھارت، افغانستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کسی صوبےیا ریاست میں صحافیوں کے تحفظ کے لیےکسی طرح کا کوئی کمیشن قائم نہیں ہے۔