پروفیسرنوتن لال کون ہیں؟ وہ کیوں جیل میں قید ہیں؟
سندھ بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے 10 نومبر کو ٹوئٹر پر (#ReleaseProfNotanLal) یعنی پروفیسر نوتن لال کو آزاد کریں کا ہیش ٹیگ چلایا اور حکومت سمیت اعلیٰ عدالتوں سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تعلیم دان کو جیل سے رہا کیا جائے
زیادہ تر لوگوں نے اپنی ٹوئٹس میں ریاست، حکومت اور عدالتوں سے مطالبہ کیا کہ پروفیسر نوتن لال کے مقدمے کی دوبارہ کارروائی کا آغاز کرکے انہیں بھی اپنی صفائی میں دلائل اور شواہد پیش کرنے کا موقع فراہم کرے۔
Sindhis fight their battles alone. People claim to be advocate for Human Rights don’t stand with Sindhi Hindus. Any outrage over this?
Sindhi Hindus are being targeted and no any outrage over imprisonment of Notan Lal on alleged blasphemy. #ReleaseProNotanLal pic.twitter.com/qBUscgnWBA
— SorathSindhu (@SindhuSorath) November 10, 2023
صارفین نے دعویٰ کیا کہ پروفیسر نوتن لال کو جھوٹے توہین مذہب کے مقدمے میں سکھر کی عدالت نے مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آکر قید کی سزا سنائی اور اب وہ چار سال سے قید ہیں اور ان کا پورا خاندان عذاب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
On November tenth (Today), campaign for Notan Lal professor has started by using hashtag #JusticeForNotanLal
In Pakistan activists or others find easy to use offensive language against Sindhis, but when it comes to raising their voices for the Sindhi Hindus who are the victims,… pic.twitter.com/nJtI2yM3W1— Veengas (@VeengasJ) November 10, 2023
پروفیسر نوتن لال کو شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 15 ستمبر 2019 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب کہ وہاں کے مسلمان اور مذہبی گروہ کے افراد نے سندھ پبلک اسکول پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کردی تھی جب کہ ہندوؤں کے گھروں اور مندروں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔
This is the reality of Justice!
A teacher falsely accused of blasphemy. Four years behind bars, facing prolonged adjournments. Let's stand for a fair trial and justice. Everyone deserves protection of their fundamental rights.#ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/VWYgUnpzPT— khalid hussain (@khalidkoree) November 10, 2023
شہر میں حملوں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے پولیس نے عبدالعزیز خان راجپوت نامی شخص کی مدعیت میں توہین رسالت کی دفعات کے مقدمہ دائر کیا تھا۔
انگریزی اخبار ڈان کے مطابق نوتن کمار پر پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 295(c) کے تحت درج کی تھی – جو کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز ریمارکس” کی سزا کے تعین سے متعلق ہے۔
A fact finding mission by the Ministry of Human Rights had found political motives behind blasphemy allegation against Notan Lal & the riots that followed in Ghotki in 2019. Notan was punished for his support to a candidate in by-elections held in Ghotki. #ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/Er7KWeSnRd
— Aurat March – عورت مارچ (@AuratMarchKHI) November 10, 2023
مدعی نے مقدمے میں پولیس کو بتایا کہ انہیں ان کے بیٹے جو کہ نوتن لال کے سندھ پبلک اسکول میں پڑھتے تھے انہوں نے بتایا کہ ہندو استاد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخی کی ہے اور بیٹے نے یہ بات انہیں دو گواہوں محمد نوید اور وقاص احمد کی موجودگی میں بتائی ۔
Professor Notan Lal, a Hindu school principal, was falsely accused of blasphemy in an FIR on September 14, 2019. The case still pending and the 59 year old still in jail. We demand justice for Professor Notan lal and demand an end to misuse of blasphemy law. https://t.co/5FjBO0Xf7Y
— Aurat March – عورت مارچ (@AuratMarchKHI) November 10, 2023
مذکورہ مقدمے کے بعد گھوٹکی پولیس نے پروفیوسر نوتن لال کو حراست میں لے کر ان کا کیس عدالت منتقل کردیا تھا اور سکھر کی عدالت نے 9 فروری 2022 کو انہیں عمر قید (25 برس قید) اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔
https://twitter.com/NarainDasBheel8/status/1722921825934430503
عدالتی فیصلے پر نوتن لال کے گھر والوں نے چند ہفتوں بعد ٹرائل کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی، جس پر متعدد سماعتیں ہو چکی ہیں لیکن تاحال کسی کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔
https://twitter.com/OfficialAlmani/status/1722895474393268535
نوتن لال کے جیل میں جانے کے بعد ان کا گھر اجڑ چکا ہے، ان کے بچے اور اہلیہ سمیت دیگر رشتے دار خوف کا شکار ہیں جب کہ شہر میں بسنے والی ہندو کمیونٹی بھی تذبذب اور خوف میں مبتلا ہے۔
ڪوڙ ۽ انڌي قانون جي ڄار ۾ ڦاٿل پروفيسر نوتن لال کي آزاد ڪيو وڃين ھن ملڪ ۾ قانون صرف غريب بي پھچ ۽ ڪمزور ماڻهن جي لاء انڌو آهي جڏهن ته طاقتور جي لاء قانون ٽڪي ڌڙي
#ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/loJIOUIVk3— شھزادي حسين (@sadafsadaf) November 10, 2023
نوتن لال کو سزا سنائے جانے کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج ممتاز سولنگی نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ استغاثہ نے جو گواہ پیش کیے ہیں وہ ’آزاد اور قابل بھروسہ‘ ہیں اور ان کے بیانات ’بدنیتی پر مبنی نہیں‘ کیونکہ ان میں سے کسی کی ملزم سے ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے، لہٰذا ان کی گواہیوں پر یقین نہ کرنے کا جواز نہیں ہے۔
Who is Notan Lal? A dedicated educator, husband, and father of four, falsely accused of insulting the Prophet. His imprisonment sparked protests and riots, leading to the vandalization of a Hindu temple and damage to his school.
#ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/hNmw3BCrUK— Chaaro (@charooxyz) November 10, 2023
عدالت کے مطابق استغاثہ ملزم نوتن پر الزام ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے چنانچہ اُنھیں عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ملزم کو مزید چار ماہ قید میں گزارنے ہوں گے۔ فیصلے کے مطابق سزا پر عملدرآمد گرفتاری کے روز سے ہو گا۔
اڄ هر باشعور، انسان دوست ۽ باضمير دوست هن هيش ٽيگ سان پروفيسر نوتن لعل سان انصاف لاءِ اٿاريل آواز سان هم آواز ٿئي… #releaseprofnotanlal#ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/Llpy8kll6P
— Saeed Mangrio (@saeedmangrio3) November 10, 2023
بی بی سی نے نوتن لال کے کزن مہیش کمار کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے شکایت کی کہ مبینہ طور پر اس مقدمے میں ’انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور دباؤ میں یہ فیصلہ سُنایا گیا۔‘
Prof. Notan Lal Panjan Sarin, unfairly imprisoned and enduring a harsh sentence, we appeal to the Supreme Court of Pakistan and the Chief Justice of Pakistan for his safe release. Let's join together and take action to secure his freedom. #JusticeForNotanLal #ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/kbcQhorVnm
— Sapna Sewani (@SewaniSapna) November 10, 2023
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کا کوئی بھی چشم دید گواہ نہیں بلکہ صرف سُنی سُنائی باتوں پر بیانات دیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ مدعی نے جن افراد کو گواہ کے طور پر شامل کیا ہے وہ بھی اس کے پڑوسی ہیں۔
ھڪ ته ظلم اهو جو نوتن لال جيل ۾ عمر قيد پيو ڀوڳي ٻيو وري سندس سرڪاري نوڪري به وئي ۽ پگهار به بند ٿي ويس ٽيون وري ٻيو ڪو مالي وسيلو نه هجڻ ڪري سندس خاندان غربت ۽ مالي پريشاني کي منهن ڏئي رهيو آ۔۔۔۔۔
گهٽ ۾ گهٽ هندو پنچائت وارن کي گهرجي ته اهي اهڙن ڪيسز ۾ ڌر ٿين#ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/1JVQSbNXgw— مصطفی مهراڻ 🙏 Mustafa Mehran (@Mustafa3113) November 10, 2023
نوتن لال کو انصاف فراہم کرنے اور انہیں جیل سے رہا کرنے کے حوالے سے سندھ کے سماجی رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پہلے بھی وقتا بوقتا سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی جاتی رہی ہے جب کہ صوبے کے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
مون کي پروفيسر صاحب جي جيل هجڻ جو ان جي ڏوھ جي بي ڏوهي جي ڪا به خبر ناهي ٽرينڊ ۾ شامل ٿيڻ جو مقصد ته سنڌي هندو ڀائرن سان يڪجهتي. #ReleaseProfNotanLal
— رضوانہ حنين (@itsrizhas_) November 10, 2023
مہیش کمار کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں ہندو کمیونٹی خوف اور دباؤ کی شکار ہے، خاص کر ان کے خاندان کو مقدمے کی پیروی میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاڻ ڪنھن کان پيا انصاف جي اميد رکون؟ سنڌين کي ڪڏهن هن سسٽم اندر انصاف مليو آ؟ ان قانونن ته هميشه سنڌي ماڻهن جي ڪيسن کي ننديو آهي. هڪ نابالغ ڇوڪري پاران ڪوڙا الازم لڳائي کين گرفتار ته ڪرايو ويو پر ڪورٽ سڳوري اڄ ڏينھن تائين ڪيس کي بھتر نموني هلايو ئي ناهي.
#ReleaseProfNotanLal pic.twitter.com/TW5RFi9daT— Daadlo (@DaadloSain) November 10, 2023