پروفیسرنوتن لال کون ہیں؟ وہ کیوں جیل میں قید ہیں؟

سندھ بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے 10 نومبر کو ٹوئٹر پر (#ReleaseProfNotanLal) یعنی پروفیسر نوتن لال کو آزاد کریں کا ہیش ٹیگ چلایا اور حکومت سمیت اعلیٰ عدالتوں سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تعلیم دان کو جیل سے رہا کیا جائے

زیادہ تر لوگوں نے اپنی ٹوئٹس میں ریاست، حکومت اور عدالتوں سے مطالبہ کیا کہ پروفیسر نوتن لال کے مقدمے کی دوبارہ کارروائی کا آغاز کرکے انہیں بھی اپنی صفائی میں دلائل اور شواہد پیش کرنے کا موقع فراہم کرے۔

صارفین نے دعویٰ کیا کہ پروفیسر نوتن لال کو جھوٹے توہین مذہب کے مقدمے میں سکھر کی عدالت نے مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آکر قید کی سزا سنائی اور اب وہ چار سال سے قید ہیں اور ان کا پورا خاندان عذاب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

پروفیسر نوتن لال کو شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 15 ستمبر 2019 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب کہ وہاں کے مسلمان اور مذہبی گروہ کے افراد نے سندھ پبلک اسکول پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کردی تھی جب کہ ہندوؤں کے گھروں اور مندروں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔

شہر میں حملوں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے پولیس نے عبدالعزیز خان راجپوت نامی شخص کی مدعیت میں توہین رسالت کی دفعات کے مقدمہ دائر کیا تھا۔

انگریزی اخبار ڈان کے مطابق نوتن کمار پر پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 295(c) کے تحت درج کی تھی – جو کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز ریمارکس” کی سزا کے تعین سے متعلق ہے۔

مدعی نے مقدمے میں پولیس کو بتایا کہ انہیں ان کے بیٹے جو کہ نوتن لال کے سندھ پبلک اسکول میں پڑھتے تھے انہوں نے بتایا کہ ہندو استاد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخی کی ہے اور بیٹے نے یہ بات انہیں دو گواہوں محمد نوید اور وقاص احمد کی موجودگی میں بتائی ۔

مذکورہ مقدمے کے بعد گھوٹکی پولیس نے پروفیوسر نوتن لال کو حراست میں لے کر ان کا کیس عدالت منتقل کردیا تھا اور سکھر کی عدالت نے 9 فروری 2022 کو انہیں عمر قید (25 برس قید) اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔

https://twitter.com/NarainDasBheel8/status/1722921825934430503

عدالتی فیصلے پر نوتن لال کے گھر والوں نے چند ہفتوں بعد ٹرائل کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی، جس پر متعدد سماعتیں ہو چکی ہیں لیکن تاحال کسی کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔

https://twitter.com/OfficialAlmani/status/1722895474393268535

نوتن لال کے جیل میں جانے کے بعد ان کا گھر اجڑ چکا ہے، ان کے بچے اور اہلیہ سمیت دیگر رشتے دار خوف کا شکار ہیں جب کہ شہر میں بسنے والی ہندو کمیونٹی بھی تذبذب اور خوف میں مبتلا ہے۔

نوتن لال کو سزا سنائے جانے کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج ممتاز سولنگی نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ استغاثہ نے جو گواہ پیش کیے ہیں وہ ’آزاد اور قابل بھروسہ‘ ہیں اور ان کے بیانات ’بدنیتی پر مبنی نہیں‘ کیونکہ ان میں سے کسی کی ملزم سے ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے، لہٰذا ان کی گواہیوں پر یقین نہ کرنے کا جواز نہیں ہے۔

عدالت کے مطابق استغاثہ ملزم نوتن پر الزام ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے چنانچہ اُنھیں عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ملزم کو مزید چار ماہ قید میں گزارنے ہوں گے۔ فیصلے کے مطابق سزا پر عملدرآمد گرفتاری کے روز سے ہو گا۔

بی بی سی نے نوتن لال کے کزن مہیش کمار کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے شکایت کی کہ مبینہ طور پر اس مقدمے میں ’انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور دباؤ میں یہ فیصلہ سُنایا گیا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کا کوئی بھی چشم دید گواہ نہیں بلکہ صرف سُنی سُنائی باتوں پر بیانات دیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ مدعی نے جن افراد کو گواہ کے طور پر شامل کیا ہے وہ بھی اس کے پڑوسی ہیں۔

نوتن لال کو انصاف فراہم کرنے اور انہیں جیل سے رہا کرنے کے حوالے سے سندھ کے سماجی رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پہلے بھی وقتا بوقتا سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی جاتی رہی ہے جب کہ صوبے کے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔

مہیش کمار کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں ہندو کمیونٹی خوف اور دباؤ کی شکار ہے، خاص کر ان کے خاندان کو مقدمے کی پیروی میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔