بحریہ ٹاؤن کو سروے کے بغیر زمین دیے جانے کا انکشاف، سپریم کورٹ نے سروے رپورٹ طلب کرلی

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی پیمائش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو بحریہ ٹاؤن کے نمائندے کے ہمراہ سروے کر کے 23 نومبر تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی 7 درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ میں سے کسی نے جا کر زمین کی پیمائش کی ہے، حکومت درخواست گزار اور دیگر فریقین نے مختلف پیمائش بتائی ہے، آخر پیمائش کرنے میں کیا حرج ہے، آپ فیتہ لیں اور پیمائش کر دیں، یہ کام ابھی تک کیوں نہیں ہوا، آخر مشکل کیا ہے۔

اس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ حدود پتا ہونی چاہیے تاکہ کل کو تجاوزات کا مسئلہ نہ اُٹھ سکے، اس حوالے سے مشترکہ سروے کروایا جائے تاکہ دوسری پارٹی اعتراض نہ کرے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابھی تک پیمائش کروائی کیوں نہیں گئی، آخر مسئلہ کیا تھا، اس پر تو فیصلہ بھی موجود ہے پھر بھی پیمائش کیوں نہ ہوئی۔

سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے ریکارڈ کے مطابق زمین کی پیمائش بتائی تھی،

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا ریکارڈ اتنا ہی اچھا ہوتا تو پھر کیا ہی بات تھی، آپ نے سوچا ہو گا کہ اب سرکار جائے اور زمین کی پیمائش کرے۔

ایک موقع پر دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی زمین کا مالک نہیں ہے۔

وکیل سلمان بٹ نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ بحریہ ٹاؤن زمین کا مالک ہو گا، قانون پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی کیوں ہو رہے ہیں، یہ آپ کا ذاتی کیس تو نہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جذباتی نہیں ہو رہا بلکہ قانون کی بات کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم 2019 کا تھا اور اس کے خلاف بحریہ ٹاؤن نے درخوست 2021 میں دائر کی۔

وکیل نے کہا کہ درخواست 14 دسمبر 2019 کو دائر کی تھی، درخواست میں پوری 16ہزار 896 ایکڑ زمین کی منتقلی یقینی بنانے کی استدعا کی گئی تھی، بحریہ ٹاؤن کی درخواست پر ابھی تک صرف نوٹس ہوا ہے، کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف درخواست پھینکنے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی، آپ جیسے سینئر وکلا بھی مقدمہ مقرر نہ کروا سکیں تو یقین نہیں آتا۔

عدالت نے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین کتنی ہے اور بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے بھی کہا کہ وہ شواہد کے ساتھ رپورٹ پیش کریں۔

عدالت نے سندھ حکومت اور ایم ڈی اے کو زمین کا سروے کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا نمائندہ بھی سروے ٹیم کے ہمراہ ہو گا۔

عدالت نے کہا کہ سروے میں سرکاری زمین پر بحریہ ٹاؤن کے قبضے کے الزمات کا بھی جائزہ لیا جائے اور محمود اختر نقوی کو بھی سروے ٹیم کا حصہ بنا دیا۔

عدالت نے سروے رپورٹ 23 نومبر کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے 19کروڑ پاؤنڈ اور بحریہ ٹاؤن سے متعلق درخواستیں 23 نومبر کو مقرر کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 18 اکتوبر کو ڈھائی سال کے طویل عرصے کے بعد بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تھی۔

اس سے قبل 21 مئی 2021 کو ہونے والی سماعت میں ہوئی تھی جہاں بینچ کو بتایا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد اور کراچی میں کم قیمت پر مکانات تعیمر کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے سامنے یہ معلومات پیش کی گئیں جس کو ملیر (سندھ) میں بحریہ ٹاؤن ڈیولپرز کی زمین کے حصول کے لیے ادائیگی کا شیڈول کے ساتھ منجمد کردیا گیا تھا۔