سندھ میں دھان (چاول) کی قیمتیں بھی کم، سیلاب متاثر کسان رل گئے

سندھ بھر میں ایک سال کے وقفے کے بعد اس بار دھان یعنی چاول جنہیں مقامی زبان میں ساریوں بھی کہا جاتا ہے کہ فصل اچھا ہوا ہے لیکن بیوپاریون کی ملی بھگت کی وجہ سے چاول کا نیا فصل اتے ہی ساریوں کی قیمت کم کردی گئیں، جس سے گزشتہ سال سیلاب کی وجہ سے فصل سے محروم رہنے والے کسان رل گئے۔

سندھ میں گزشتہ برس چاول کی کاشت کے موسم کے وقت بدترین سیلاب آیا تھا، جس وجہ سے صوبے بھر میں چاول (ساریوں) کی کاشت نہیں ہو پائی تھی۔

ایک سال بعد اب صوبے میں چاول کی کاشت ہوئی ہے تو بیوپاریوں نے ملی بھگت سے چاولوں (ساریوں) کے دام کم کردیے، جس سے قرض لے کر فصل اگانے والے کسان رل گئے۔

چاول کی زیادہ تر کاشت لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں ہوتی ہے تاہم کراچی کے علاوہ صوبے کی باقی تمام ڈویژن میں چاول کی فصل ہوتی ہے۔

سندھ میں 75 فیصد چاول کی پیداوار والے اضلاع دادو، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، سکھر بدین، قمبر شہزاد، کوٹڑی اور ٹنڈومحمد خان شامل ہیں لیکن تمام شہروں میں بیوپاریوں نے ملی بھگت سے چاول کے دام انتہائی کم کردیے ہیں۔

جہاں بیوپاریوں نے نئی فسل تیار ہوتے ہی قیمتیں کم کردی ہیں، وہیں رائیس ملز مالکان بھی سیلاب متاثر کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے لگے اور ہر 100 من دھان پر 3 من کی کٹوتی کرنا شروع کر دی.

نئی فصل آتے ہی سندھ میں چاول(ساریوں) کے دام کم، کسان رل گئے

اس وقت بیوپاری ملی بھگت کے تحت ایری 6 اور ایری 9 کی جنس کے چاول کی خریداری تین ہزار فی من سے بھی کم میں کر رہے ہییں جب کہ کائنات اور سوپر چاول کی خریداری بھی 5 ہزار روپے فی من سے کم میں کی جا رہی ہے۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ کھاد سمیت دیگر اخراجات میں ہزاروں روپے لگ گئے، قرض لے کر فصل تیار کیا اور اب جب چاول کی کٹائی کرکے اسے فروخت کر رہے ہیں تو اخراجات بھی نہیں نکل رہے۔

کسانوں کی جانب سے سکھر، شکارپور، لاڑٓکانہ، قمبر، کندھ کوٹ، خیرپور، بدین اور ٹنڈو محمد خان سمیت دیگر شہروں میں چاول کے کم دام کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والے چاول کا 45 فیصد حصہ سندھ میں کاشت ہوتا ہے اور سندھ کے چاول کی بیرون ممالک بھی بہت ڈیمانڈ ہے۔