سندھ کی اقلیتی برادری انتخابات میں مذہبی شناخت پر جداگانہ ووٹ کاسٹ کرنے کی خواہاں
سندھ میں رہنے والے اقلیتی افراد کا شکوہ ہے کہ وہ نہ صرف مکمل طور پر انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنتے بلکہ مردم شماری کے دوران بھی انہیں پورا نہیں گنا جاتا، یعنی ان کی آبادی کم کرکے بتائی جاتی ہے اور پھر نادرا میں رجسٹریشن کے وقت بھی ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، اسی طرح انہیں ووٹر رجسٹریشن کے دوران بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
انتخابی عمل کا حصہ بننے یا اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے لیے سب سے پہلے شہری کا رجسٹرڈ ووٹر ہونا لازمی ہوتا ہے، تاہم سندھ میں آباد سب سے بڑی اقلیت ہندوؤں کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کی رجسٹریشن ان کی آبادی کے مقابلے کم ہوتی ہے۔
اسی حوالے سے اقلیتی برادری کے سماجی رہنما مکیش میگھواڑکہتے ہیں ہمیں ٹھیک طرح سے گنا نہیں جاتا اگر آپ سندھ کے مختلف اضلاع کا دورہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مذہب کے خانے میں ہندو اور دلت کا لفظ استعمال کیا جاتاہے۔دلت ہندوبرادری سے تعلق رکھنے والے نیچلے ذات کے لوگ ہوتے ہیں جیسے کوہلی ، باگڑی وغیرہ ہے۔ تو جب آپ کو ہندو کے طورپر بھی ٹھیک اسٹیٹس نہیں دیا جائے گا آپ کو کمتر سمجھاجائے گا پھر کیا حقوق کیا ووٹ کا عمل آگے بڑھےگا۔
اقلیتی برادری میں بھی ایک چیز جو سب سے ذیادہ نمایاں ہے وہ کلاس کا فرق واضح ہےاقلیت کے لوگ جو بزنس کمیونٹی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ معاشی طورپر خوشحال طبقہ ہے انکو وہ مسائل درپیش نہیں ہوتے ہیں جیسے دیگر مزدور ، کسان اور دہکان کو جن مسائل کا سامنا رہتاہے۔ ان کی کہیں سنی نہیں جاتی ہے مذہب کےخانے میں فیملی ٹری ٹھیک نہ ہونا ، کسی کے والد کا شناختی بنا ہے تو والدہ کا نہیں اور اگر والدہ کابنا ہوا ہےتو والدکا نہیں اس قسم کے مسائل کی وجہ سے الیکشن کے اس عمل میں آگے نہیں بڑھاجاتا۔پورے سندھ میں سوائے دواضلاع تھرپارکر اور عمر کوٹ کے اقلیتی برادری کے افراد جنرل سیٹ پرلڑنے کا نہیں سوچ سکتے ہیں کیونکہ انہیں کہیں اوراتنی تعداد میں اب تک ٹھیک طرح سے نہیں گنا گیا ہے۔
پاکستان مندر مینجمنٹ کمیونٹی کے چیئرمین کرشن شرما کہتےہیں الیکشن کو سمجھنے کےلیے سب سے پہلے سندھ کے مزاج کو سمجھنا ضروری ہے۔کوئی بھی سندھ میں اقلیت ہو یا پھر عام لوگ ان میں جو سب سے واضح اور اہم فرق ہے وہ ہے اسٹیٹس کلاس کا ۔ آپ کس طبقے سے تعلق رکھتے ہو، برادری قبیلے اور آپ اچھے بزنس مین ہو پیسے والے کاروباری شخصیت ہے تو آپ کو بآسانی سیاسی جماعت ٹکٹ دے کر منتخب کرلیتی ہے پھر کوئی عہدہ بھی سونپ دیا جاتاہے ۔ حقیقی معانوں میں وہ منتخب شخص عوامی نمائندہ نہیں ہوتاہے وہ اس گراس روٹ لیول سے اٹھ کر نہیں آیا ہوتاہے جہاں اس کے روزگار کے مسائل ، تعلیم کا ایشو ہو اس کو کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتاہے۔
پھر اس میں سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کا طریقہ انتخاب بہت مہنگاہے، پاکستان میں الیکشن ایک انتہائی مہنگا عمل ہے کسی بھی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ ایک طرح کا اجازت نامہ ہوتاہے۔پرانے زمانوں میں حلقوں میں صرف پوسٹر اور بینرز دیواروں پر آویزاں کئے جاتےتھے۔اور اپنے حلقے میں کسی بڑے یا مشہور آدمی کی بیٹھک میں رات گئے تک کمپئن مختلف انداز میں چلائی جاتی تھی ۔ اب طریقہ کار یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ۔ سب سے ذیادہ اور پاورفل کمپئین جو چلتی ہے وہ ٹیلی ویژن کا میڈیم ہے جہاں پر پیڈ کانٹینٹ کے نام سے پارٹی کی مشہوری کے لیے ووٹرز کو موٹی ویٹ کرنے کےلیے مختلف اشتہار تیار کرکے مختلف چینلز پر نشر کئے جاتے ہیں سب سے کم وقت کا جو ٹی وی پر اشتہار چلتاہے وہ کم از کم 30 سکینڈ کا ہوتاہے 30 سیکنڈ کا اشتہار صرف ایک چینل پر ایک وقت پر چلنے پر کم از کم بھی پچاس ہزار درکار ہوتے ہیں اور پرائیم ٹائم میں یہ پیسے مزید بڑھ جاتے ہیں مزید اشتہار مہنگا چلتاہے پرائم ٹائم کا جو وقت ہے وہ شام چھ سے رات بارہ تک کا ہوتاہے۔ پھرپارٹی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کے سب بڑے چینل پر یہ اشتہار چلے اور بار بار چلے تو اس میں صرف ٹی وی چینلز پر چلنے والے ایک اشتہار کو آپ کئی مرتبہ دیکھتے ہیں تو خود اندازہ لگا سکتےہیں یہ کیمپئن کس حد تک مہنگی ہے۔کارکنان کا خرچہ ، دیگر اخراجات الگ ہے۔
اچھا اس اشتہار کو بنانے کےلیے بھی کافی پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں کیمرہ شوٹ ، ٹیم آئیڈیا اور ایڈیٹنگ ، میوزک ، گرافکس ، اسکرپٹ دیگرلوازمات شامل ہوتی ہیں ۔ وہ خرچہ پارٹی کو یا پھر امیدوار کو الگ کرنا پڑتاہے۔ اس کے علاوہ پینا فلیکس ، ڈیجیٹل بورڈ آگئے ہیں جو کہ ڈیجیٹل اشتہار کی صورت میں مختلف سڑکوں پر نظر آتے ہیں اس پر بھی اشتہار چلانے کاعمل جاری رہتاہے۔پاکستان میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی اپنے امیدوار کا خرچہ خود اٹھاتے ہیں وہ صرف الیکشن میں کھڑا ہوتاہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف انکے پارٹی امیدوار خود خرچہ اٹھاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ورکرز کو موبلائز کرنے کےلیے گاڑیوں کی خرید وفروخت کا معاملہ یہ خرچہ کم از کم بھی جاکر کروڑوں روپے تک پہنچتاہے جو امیدوار یہ خرچہ برداشت کرسکیں تب جاکر ایک جاندار مہم چلتی ہیں۔ پھر اس کے علاوہ سوشل میڈیا ونگز ہر حلقے کو اپنے الگ الگ بنانے کی ضرورت پڑتی ہے جہاں پر ایک مکمل آئی ٹی گرافکس اور کریٹو ٹیم بیٹھتی ہے جو منفی پروپگینڈہ سمیت مختلف اصلاحات لانے کے حوالے سے کمپئین کو چلارہے ہوتےہیں۔
دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تھرپارکر سے ڈاکٹر نائچ کمار ملانی ڈیڑھ لاکھ ووٹ لیکر کامیاب امیدوار قرار پائے اس میں 70 فی صد ووٹ مسلمانوں کے شامل ہے۔
جیت ہار کا فیصلہ پولینگ ڈے پر ہوتاہے اس کا بھی آپ کوعلم ہوتا ہے الیکشن کیسے ہوتے ہیں۔ہندو برداری کے ووٹ درج ہوتے ہیں ، تمام طریقہ کار سب فیئر ہے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہے ۔
الیکشن 2018 میں 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 407 ووٹر حق رائے دہی استعمال کیا گیا ۔انتخابی فہرستوں میں اقلیتی برادری کے 36 لاکھ 26 ہزار 365 ووٹرزکے نام شامل تھے۔
اقلیتی برادری میں سب سے زیادہ ووٹ 17 لاکھ 77 ہزار 289 ہندو برادری کے تھے۔
مسیحی برادری کے 16 لاکھ 38 ہزار 748 ووٹرز تھے،احمدی ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 65 ہزار 369 تھی۔ سکھ برادری کے 8 ہزار 8 سو 33 ووٹرز ،
پارس 4 ہزار 2 سو 22 ووٹرزتھے ۔ بدھ مت سے تعلق رکھن والے ووٹرز کی تعداد 1ہزار 8 سو 66 ہے،
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی تعداد 44 لاکھ 30 ہزار ہو گئی ہے جوکہ 2018 میں 36 لاکھ 30 ہزار اور 2013 کے عام انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں میں 27 لاکھ 70 ہزار تھی۔ اس لحاظ سے پاکستان میں 10 لاکھ غیر مسلم ووٹرز کا اضافہ اقلیتیوں کے ووٹ میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اقلیتوں کا شکوہ ہے کہ یہ تعداد بھی کم ہے۔
پاکستان کے صوبوں میں آباد ہندو آبادی کا تناسب
سندھ میں مقیم ہندو آبادی 93%
پنجاب میں مقیم ہندو آبادی 5%
بلوچستان میں مقیم ہندوآبادی 2%
ہندومختلف زبانیں بولتیں ہیں جیسے کہ سندھی، سرائیکی، ایر، ڈھٹکی، گیرا، گواریہ، گرگولہ، جنڈاوڑا، کبوترا، کولی، لوارکی، مارواڑی، سانسی، واگھڑیاور گجراتی شامل ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں دس اور آرٹیکل 106کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں، جن کی تقسیم کچھ یوں ہے۔
سندھ :9، پنجاب:8، بلوچستان:3، خیبرپختونخواہ:4سینٹ میں 4 سیٹیں مختص ہیں۔
پاکستان کل رجسٹرڈ ووٹرز 12کروڑ 21لاکھ 96 ہزار 122
اقلیتی ووٹرز کی تعداد 39 لاکھ ،56 ہزار336
ہندو ووٹرز کی تعداد 2073983
کرسچن ووٹرز کی تعداد 1703288
دیگر اقلیتیوں کے ووٹ 174165
اگست2022ء کے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار چھتیس لاکھ، اکتیس ہزار چار سو اکہتر گزشتہ الیکشن ( 2013) میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعدادچار لاکھ اکیاسی ہزار دو سو نوے 4,081,290 اقلیتی ووٹوں کی تعداد میں اضافہ
معروف صحافی ، ادیب اور سماجی رہنما معصوم تھری کہتےہیں کہ دوہزار دو کی آئینی ترامیم کے مطابق محفوظ نشستوں پر اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کا حق متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دیاگیا ہے ۔ اب نمائندے کا انتخاب یہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں ۔ جو کہ عوامی نمائندہ نہیں ہوتاہے وہ ایک خاص بزنس کلاس سے ہوتاہے یا کاروباری مالدار شخصیت ہوتاہے اسے بعد میں بہترین عہدے دیئے جاتے ہیں لیکن وہ اقلیتوں کے مسائل کی طرف اس کا کبھی دھیان نہیں جاتا کیونکہ وہ انکو جواب دہ نہیں کیونکہ وہ انکے ووٹ سے نہیں منختب ہوا ہوتاہے ہونا یہ چاہیے کہ جو محفوظ نشستیں ہے اس میں اقلیتی برادری کا باقاعدہ مقابلہ کرانا چاہیے جس کو ذیادہ ووٹ پڑے وہ میدان میں آئے لیکن یہ طریقہ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتوں کی بھرپورنمائندگی نہیں ہوپاتی ہے۔
اقلیتیوں کے لیے اب تک الیکشن پروسیس میں دی گئیں سیٹوں کے چنائو کا طریقہ کار ہی درست نہیں ہے۔
تھرپاکر اور صحرائے تھر میں ذیادہ تر آبادی خانہ بندوش ہےوہ موسم کے لحاظ سے ہجرت کرتیں ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتےہیں۔ بعض دفعہ ایسے ہوتاہے کہ ایک علاقے میں ووٹر رجسٹریشن کا عمل چل رہا ہوتاہے لیکن وہاں سے بیشتر لوگ دوسرے علاقے میں ہجرت کرکے جا چکے ہوتے ہیں اور انکا اس طرح اندراج ووٹنگ کے مرحلے میں نہیں ہوپاتاہے۔
سماجی رہنما سفینہ گل کہتی ہیں کہ ہندو برادی کے ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ناخواندگی ہے، غربت ہے پس ماندگی ہے اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ ایک انسان دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے پریشان ہے تو وہ دیگر چیزوں کے متعلق بھلا کیسے سوچ سکتاہے۔ دوسرا سندھ کے اندر نادرا آفس اس گائوں دیہات کے قریب نہیں ہوتی ہے کہ جاکر شناختی کارڈ بناوا لیں یا پھر ووٹ کا اندراج کراسکیں۔ وہ کافی دور اور فاصلے پر قائم ہوتاہے جس کےلیے ایک عام آدمی کا یک جگہ سے دوسری جگہ جانا ممکن نہیں ہوپاتا ہے۔
پھر ہمارے ملک میں اقلیتیوں کو کوئی مساوی حقوق حاصل بھی نہیں وہ وزیر اعظم اور صدر نہیں بن سکتے ہیں یہ ایک قسم کی تخصیص تو ہے۔
اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے 2013 میں اقلیتی حق میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جو کہ پانچ بار پیش کیاگیا لیکن کمیٹی بنادی گئی لیکن اقلیتیوں کی نشستیں تاحال دس ہی ہیں۔جنہیں بڑھایا نہیں گیااور اس میں ایک اور ترمیم یہ تھی محفوظ نشستوں پر براہ راست الیکشن کرائے جائے وہ پارٹیوں کے مرہوں منت نہ ہو ۔
جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے پنجاب کو این اے میں 141 جنرل نشستیں، سندھ کو 61، خیبر پختونخوا کو 45، بلوچستان کو 16 اور اسلام آباد کو تین نشستیں دی گئیں۔
کرشنا کماری کوہلی کا تعلق تھرپارکر سندھ سے ہے۔ کرشنا ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی پہلی سینیٹر ہیں۔ کرشنا 2018ء میں ممبر سینٹ بنی۔
کہتی ہیں کہ باقی تمام پارلیمنٹ کی سیٹیں بڑھ سکتی ہیں تو اقلیتوں کی سیٹوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے انکی آبادی کے ساتھ اںصاف کیا جانا چاہیے ۔ اگر سینٹ میں اس وقت چار سیٹیں ہیں تو انہیں بڑھا کر کم از کم آٹھ کردینا چاہیے اور سندھ میں نو محفوظ سیٹیں ہیں تو انہیں بڑھا کر کم از کم 15 کرنے کی بےحد ضرورت ہے۔ میں ہندو کیمونٹی سے ہوں لیکن میں جنرل سیٹ پر منتخب ہوکر آئی ہوں ۔ میں سمجھتی ہوں اقلیت ہو یا پھر مسلم ہے تو سب پاکستانی تو اس لحاظ سے ہر ضلعے میں اقلیت کی ایک سیٹ ہونا لازمی قراردیا جانا چاہیے اس سے بہترین طورپر ہم اپنی نمائندگی کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ انکا کہناتھاکہ خواتین کی سیٹوں میں بھی اضافہ کرنے کی بےحد ضرورت ہے۔قانون سازی میں جتنی دلچسپی ایک خاتون لیتی ہے مرد حضرات اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ہم سینٹ سے مائنورٹی پروٹیکشن بل لا رہے تھے لیکن وہ ریجیکٹ کردیا گیا میں واحدخاتون تھی جس نے احتجاج کیا اگر وہ بل بھی پاس ہوجاتا ہے تو اقلیتوں کے کافی مسائل حل ہوسکتےتھے۔
کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی سے ڈیولیپمنٹ اسٹیڈیز میں گریجویشن کرنے کے بعداعلٰی تعلیم کےحصول کے لیے جرمنی جانے والی دیپنا کرن کہتی ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی،اغوا برائے تاوان ، جبری شادی، تعلیمی مواقع نہ ملنا ، روزگار کی سہولیات نہ ہونا صحت کے مسائل ، آج تک کسی مردم شماری میں ہمیں ٹھیک نہیں گنا گیا اور سیکیورٹیز کنسرنز ہیں۔
میں یہ سوچتی ہوں کہ سندھ اسمبلی میں خواتین کی تعداد ذیادہ ہونی چاہیے اقلیتوں کے حوالے سے جب تک بل پاس کرنے والے خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے تمام مرد ہی ہونگے چاہیے وہ اقلیتوں کے ہی کیوں نہ ہو۔ خواتین کو اپنا حق کیسے مل سکتاہے۔ کل کو کوئی ہندو لڑکی اگر اسمبلی میں نمائندگی کرے گی تو وہ ہی خواتین کے مسائل ٹھیک طرح سے اجاگر کر سکتی ہے۔تب ہی ایک خاتون اور لڑکی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔جب تک آپ کی نمائندگی کرنے والی خود خاتون نہیں ہوگی تو آپ کی بات آپ کی آواز آگے نہیں پہنچ پائےگی۔
اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ خواتین بڑھ چڑھ کر الیکشن میں حصہ لیں خواتین امیدوار الیکشن میں حصہ لیں اور تمام اقلیتی برادری کی خواتین یہ کوشش کریں اپنی خاتون امیدوار کا ہی انتخاب کریں۔ایجوکیشن میں ہمارا اپنا سیلبس ہونا چاہیے ہمیں اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر تعلیم دی جائے۔ہمارے اپنے اسکول ہوں اپنا طریقہء تعلیم ہو جو ہندو کمیونٹی ہی جسے چلائے۔
ایجوکیشن کےحوالے سے آپ کیمونٹی اسکولز بنا لیجیئے جگہ جگہ پرپاپولیشن کو مارک کرکے یہاں پر فلاح کیمونٹی کی نمائندگی ہے تو انکے حوالے سے ایک اسکول بنایا جائے اس اسکول کا پرنسپل بھی ہندو کیمونٹی سے ہونا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے یا کمیونٹی کی طرف سے تاکہ انکے ایجوکیشن کا فلو رہے وہ آگے کی جانب جائے۔
مردم شماری کے حوالے سے ہم یہ کہتےہیں کہ اس میں کیمونٹی کو اتنی نمائندگی نہیں دی جاتی ہے جتنی دینی چاہیے۔ لوگوں کو اب تک کراچی اور تھرپار کر انداز ہ نہیں ہے کہ کتنی تعداد میں ہندو موجود ہے۔ جہاں پر اقلیتی برادری بھی ہے۔مردم شماری کے ذریعے اور نیوز کے ذریعے لوگوں کو اس بات کا معلوم ہونا چاہیے۔یہاں پر اقلیتی برادری بھی کافی نمبر میں ہے جن کی تاریخ کلچر مذہب سب کچھ یہاں موجود ہے۔اور مردم شماری میں کراچی کو ٹھیک نہیں گنا گیا تو بھلا ہمیں کیسے گنا جاسکتاہے۔
حیدرآباد آباد یونین آف جنرلسٹ کے سیکریٹری ،سندھی اخبار روزنامہ عبرت کے سینئر نیوز ایڈیٹر اور لوک سجاگ سندھ کے ایڈیٹر جے پرکاش مورانی کہتے ہیں کہ ہماری آبادی بھی بڑھ رہی ہےاور ہمارا مطالبہ ہےکہ کم از کم اقلیتی برادری کی 15 سیٹیں ہونی چاہیے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقلیتی برادری کے حوالے سے خاص قانون سازی کی ضرورت ہے جس پر کچھ کام ہوا ہے اور کچھ کام ہونے کی ضرورت ابھی باقی ہے۔اگر آپ دیکھیں ہمارے لوگوں کا معیار زندگی کو کچھ ذیادہ بہتر نہیں ہے ۔
روزمیٹھانی مائینوریٹیز ایکٹویسٹ کہتےہیں کہ نفرت کو ختم کیا جائے ایسا سلیبس بنایا جائے جس میں مذہبی ہم آہنگی پیداہواور الیکشن میں اقلیت وہی مساوی حقوق ملنے کی ضرورت ہے جو سب کو حاصل ہے ہماری آبادی کے لحاظ سے سیٹیں بڑھانے کی بےحد ضرورت ہے اور ہماری آبادی کو بہتر اور ٹھیک انداز میں گنے جانے کی ابھی تک گنجائش باقی ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کے ڈائریکٹر منور علی گھانگھرو سے جب ہندو کمیونٹی اور اقلیتی کمیونٹی کی آبادی کے لحاظ سے بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ اب تک ہم نے کوئی ڈیٹا کمپائل نہیں کیا ہے پہلے وہ کمپائل ہوگا اس کے اپروول ملنے کے بعد ہم اسے انائوس یا پبلک کرنے کی پوزیشن میں ہونگے دوبارہ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے اندازے کے مطابق اقلیت کی کتنی آبادی ہوگی تو انہوں نے کہاکہ میں اس پر فلحال کچھ نہیں کہہ سکتاہوں ۔
اقلیتی برادری کو ٹھیک طرح سے نہ گنے جانے اور دیگر مسائل کے حوالے سے جب ہم نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی سے بات کرنے کی کوشش کی تو نہ انہوں نے میسیج کا جواب دیا اور نہ ہی انہوں نے اس پر فون اٹھانے کی زحمت کی ۔ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسئی پلیجو ، شازیہ عطا مری ،اور سورٹھ تھیبو، نہال ہاشمی اور دیگر سابق ممبران سندھ اسمبلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس پر بات کرنے سے معذرت کرلی اور بعض نے تو فون ہی نہیں اٹھایا۔
اقلیتی برادری کو ٹھیک نہ گننے کی وجہ سے سماجی رہنما کہتے ہیں کہ تعلیم ، روزگار، صحت اور دیگر شعبوں میں انکی آوازیں خاموش ہوکر رہ جاتی ہیں وہ تعلیم سیلیبس ، اپنے اسکول ، اپنے اساتذہ ، اسکالر شپ ، روزگار اور دیگرامور پر انکی آوازیں دب کر رہ جاتی ہیں انہوں وہ حقوق نہیں ملتے جو سماجی طور پر ایک انسان کو حاصل ہوں۔ کم گنے جانے کی وجہ سے ایوان میں انکی نمائندگی نہیں ہوتی ہے قانون سازی میں بھی یہ مزید پچھے رہ جاتے ہیں شناختی کارڈ کا نہ بننا ، ووٹرز رجسٹریشن حاصل نہ کرنے کی وجہ سے نمائندگی ختم ہوکر رہ جاتی ہے جس کے ساتھ زندگی کی تمام ترقی اور شخصی شناخت دب کر رہ جاتی ہے۔