داؤدی بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا سندھ پہنچ گئے، بوہرہ کون ہیں؟
داؤدی بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین بھارت سے سندھ پہنچ گئے، دارالحکومت کراچی آمد پر نگران وزیراعلیٰ سندھ مقبول باقر نے ان کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔
داؤدی بوہرہ کمیونٹی کے روحانی پیشوا ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین اپنی فیملی کے ہمراہ پیر کو اولڈ ٹرمینل پہنچے جہاں نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر، سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا اور بوہرہ برادری کے ممبران نے ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کا استقبال کیا۔
خیال رہے کہ داؤدی بوہرہ اہل تشیع کی اسماعیلی شاخ کا ایک ذیلی فرقہ ہے۔ شیعہ حضرا ت بارہ اماموں کو مانتے ہیں جبکہ بوہری فرقے کے لوگ امام جعفر صادق کے بعد کسی بھی امام کو نہیں مانتے۔بوہری فرقہ کے عقائد اور شیعہ رافضیوں کے عقائد میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ بوہری فرقہ دراصل رافضیوں کی ہی ایک شاخ ہے۔
مورخین کا ماننا ہے کہ داودی بوہرہ اسماعیلی فرقے کے پیروکار اصل میں مستعلیہ گروہ کی بھارتی اور پاکستانی شاخ کے ہندو تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے۔
بوہرہ گجراتی لفظ دوہروں کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی تاجر کے ہیں۔ مغربی ہند میں ہندو بوہرے بھی ہیں اور سنی بوہرے بھی۔ بالعموم یہ بیوپاری ہیں اور شہروں میں رہتے ہیں۔ افریقا اور الجزائر، مصر، متحدہ عرب امارات میں بھی تجارت کرتے ہیں اورعرب مسقط میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔
بعض مورخین کے مطابق امام جعفر صادق کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔امام صادق کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق کی زندگی میں ہی ہو گئی۔جب امام صادق کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثرلوگوں نے امام کاظم کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ "اسماعیلی” کہلائے۔ اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔
علما کے مطباق جن لوگوں نے امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی” کی بنیاد رکھی۔ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے” بوھرہ” ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی” ہیں۔
سندھ میں بوہرہ کمیونٹی کے زیادہ تر افراد کراچی ڈویژن میں آباد ہیں، تاہم ان کی محدود آبادی حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژن میں بھی ہے۔
بوہرہ افراد اپنے لباس، لہجے اور طرز زندگی سے سب سے مختلف دکھائی دیتے ہیں، سیدھے سادے لب و لہجے اور اپنی ہی چھوٹی دنیا میں مگن رہنے والے بوہرہ افراد کی دنیا دوسروں سے الگ ہے، ۔کھانےکے طور طریقے، ذائقے، پہناوے، عبادت گاہیں، ۔یہاں تک کہ خواتین کا برقع بھی الگ اور بہت دلکش ہوتا ہے، جسے ’ردا‘ کہا جاتا ہے۔
ردا دو حصوں پر مشتمل، عام برقع کی طرح کالا نہیں ہوتا بلکہ نت نئے رنگوں کا ہوتا ہے ۔ اس کے ڈیزائن اور کلرز ہی منفرد ہوتے ہیں۔ گلابی، لال، ہرے، نیلے، سنہری اور سب کے سب پھول دار اور خوب صورت میچنگ والی یا کنٹراسٹ رنگوں کی بیلوں یا لیس کے ساتھ بنے ہوئے۔
اس کی بناوٹ اور تراش خراش، سلائی اور کڑھائی بھی عام برقعوں جیسی نہیں ہوتی۔ عام خواتین چہرہ ڈھک کر رکھتی ہیں۔ لیکن، بوہری خواتین چہرے پر حجاب نہیں پہنتیں۔ یہ ردا خاص طور پر درزی ہی سیتے ہیں وہ بھی صرف ایسے علاقوں میں جہاں ان کی اکثریت آباد ہو۔
داؤی بوہرہ جماعت کی خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے پہناوے بھی الگ اور روایتی ہوتے ہیں۔ مرد ہر وقت سر پر ایک خاص انداز سے بنی، دو یا ایک سنہری رنگوں والی سونے کی چمک جیسی لائنیں پوری ٹوپی کے گرد ’حالہ‘ کئے رہتی ہیں۔ مرد ہمیشہ پاجامہ زیب تن کرتے ہیں وہ بھی سفید رنگ کا۔ قمیص اور شیروانی خاص لباس میں شمار ہوتا ہے۔ عورتین لمبا سا لہنگا زیب تن کرتی ہیں جسے ’گھاگرا‘ کہا جاتا ہے۔
مردوں کے لئے داڑھی رکھنا لازمی ہے۔ اسے منڈوایا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بالغ بوہرہ داڑھی کے بغیر نظر نہیں آتا۔ داڑھی کم عمری میں رکھ لی جاتی ہے۔داڑھی کا کی تراش خراش یا انداز مخصوص قسم کا ہوتا ہے اور یہی انداز انہیں دوسری برادری سے ممتا ز رکھتا ہے۔
لڑکوں یا مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کا لباس بھی خاص ہوتا ہے۔ سفید گاؤن، سفید پاجامہ اور سفید ہی شرٹ۔ سر پر وہی مخصوص ٹوپی۔