سندھ کی جوگی برادری ووٹ کاسٹ کرنے سے بے خبر، بنیادی حقوق سے بھی محروم

ضلع سجاول میں جوگیوں کے بڑے بڑے گوٹھ اور قصبے ہیں، جہاں ہزاروں جوگی مقیم ہیں لیکن انہوں نے آج تک ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں درست انداز میں انتخابی عمل کا علم ہے۔
جانی جوگی نے میٹرک تک تعلیم حاسل کر رکھی ہے اور اس ناطے وہ اپنے لوگوں کے بنیادی حل کے لے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں، انہوں نے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جوگی برادری کے زیادہ تر لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں، انہیں اپنے بنیادی حقوق سے متعلق ہی کوئی علم نہیں تو انہیں ووٹ کی اہمیت اور انتخابات کا اندازہ کس طرح ہوگا؟
جانی جوگی نے اقلیتوں کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری میں جوگی برادری کے لوگ نہایت غریب اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، اس برادری سے جڑے افراد میں اکثریت ان پڑھ ہیں اور ان کو اپنے ووٹ کی اہمیت ہی معلوم نہیں۔
عام طور پر جوگی قبیلے کا گزر سفر سانپ پکڑنے، بانسری بجا کر سانپ کے مختلف کرتب دکھانے اور گھروں سے بھیک مانگ کر گزارا کرنے سے ہوتا ہے، ان کے بیشتر افراد ان پڑھ اور بنیادی حقوق کی تعلیم سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔
جانی جوگی نے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ غیر تعلیم ہافتہ ہونے کی وجہ سے جوگی برادری کے تقریبا تمام لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے کیوں کہ ہمیشہ اقلیتی ارکان اسمبلی نے ان کو نظر انداز کیا ہے، ہر انتخاب کے بعد ان کے مسائل جوں کہ توں رہتے ہیں، ان کی نمائندگی نہ ہونے اور مخصوص اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کا ان کے لوگوں سے میل جول نہہیں ہوتا جب کہ وہ انہیں کم تر بھی سمجھتے ہیں۔
جانی جوگی کا کہنا تھا کہ بنیادی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے اب ان لوگوں کا ووٹ دینے یا انتخابی عمل میں آنے سے دل برداشتہ ہوگیا ہے، اب تو لوگوں کی انتخابات میں دلچسپی ہی نہیں رہی۔
جانی جوگی خود ایک سماجی کارکن ہونے کے ناطے علاقے باسیوں کے چھوٹے موٹے مسائل سوشل میڈیا کے سہارے حل کروانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں کو چھوٹی ذات کی اقلیتی برادری کو مخصوص نشست کے ساتھ ساتھ کم سے کم پورے سندھ میں سے ایک جنرل نشست پر بھی ٹکٹ دینا چاہیے تاکہ ان کے بنیادی مسائل حل ہو سکیں کیونکہ غریب کو پتا ہوتا ہے کے غریبوں کے کون سے اہم اور ضروری مسائل ہیں جسے وہ حل کرنے کو ترجیح دے۔
ضلع سجاول اور اس کے پڑوسی شہروں اور اضلاع میں ٹھٹھہ، بدین اور ٹنڈو محمد خان اضلاع میں آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں کسی بھی اضلاع سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے افراد کو نا اقلیتی مخصوص نشست کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور نہ ہی عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت نے انہیں ٹکٹ دیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ آئین پاکستان میں آرٹیکل 20 سے لے کر 27 تک اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے، ملک کے تمام طرز کے انتخابات میں اقلیتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں لیکن اس باوجود ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ میں بھی اقلیتی افراد انتخابی عمل اور طریقہ کار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
ضلع سجاول میں کثیر تعداد میں اقلیتی افراد رہائش پذیر ہہں، جن میں ہندو، مسیحی ، جوگی، مارواڑی میگھواڑ، احمدی، کولہی اور دیگر شامل ہیں۔
ان میں سے ہندو، میگھواڑ، مارواڑی اور مسیحی ووٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے لیکن کم وہ کم ووٹرز بھی ووٹ کاسٹ کرنے کو رضامند نہیں ہوتے۔
اس حوالے سے سجاول کی سیاسی شخصیت ڈاکٹر ھریش کمار نے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع سجاول میں 36 ھزار سے زائد ووٹ اقلیتیوں کے ہیں جب کے سجاول کے پڑوسی اضلاع ٹنڈو محمد خان، بدین اور ٹھٹھہ میں اقلیتوں کے 10 لاکھ ووٹ ہیں مگر 56 سالوں میں سندھ کی کسی جماعت نے کبھی بھی عام انتخابات میں اقلیتی برادری کے لوگوں کو کوئی جنرل سیٹ نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سیاسی جماعتیں کسی دولتمند شخص کو اقلیتی مخصوص سیٹوں کو پیسوں کے عوض ٹکٹ دیتی ہیں اور جب وہ کامیاب ہوکر اسمبلی جاتے ہیں تو عام اقلیتوں کی نمائندگی نہیں کرتے، پانچ سالوں تک عوام کو بھول جاتے ہیں، غریب اقلیتوں کے مسائل سے بھی وہ ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے سیاسی جماعتوں کو اقلیتی برادری سے وابستہ عام ورکروں اور مخصوص سیٹس کے ساتھ
کسی ایک ایک ضلع سے جنرل نشست کا ٹکٹ بھی دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے لوگوں کی درست نمائندگی کر سکیں۔
ھریش کمار کا کہنا تھا کہ اگر ان کی جماعت انہیں سجاول ضلع کی جنرل نشست پر ٹکٹ دے تو سجاول ضلع کے 36 ھزار سے زائد اقلیتی ووٹروں کی حمایت سے کامیاب ہو کر یہاں کی اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے بنیادی مسائل حل کرا سکتے ہیں مگر جماعت کم ووٹ ہونے کا کہ کر ٹکٹ نہیں دیتی، اس لیے ہم پارٹی ٹکٹ کے لئے اپلائی نہیں کرتے۔
سجاول کے قریب نودو بھارن کے علاقے میں جوگی قبیلے کا ایک بڑا گوٹھ جمن جوگی ہے، جہاں کہ اکثریتی نوجوان جوگیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران با اثر افراد آتے ہیں، ووٹ لینے کے لئے ہم سے وعدے وفا کرتے ہیں اور ہم ان پر اعتبار کر کے انہیں ووٹ دیتے ہیں، کامیابی کے بعد وہ لوگ پانچ سال تک غائب ہو جاتے ہیں اور ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرتے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمارے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں، اب اگر ہمارے علاقے سے اقلیتی برادری کے کوئی انتخابات میں حصہ لے گا یا کوئی سیاسی جماعت ٹکٹ دی گی تو ہم بڑھ چڑھ انتخابی عمل میں دلچسپی لینگے ورنہ انتخابات کا بائیکاٹ کرینگے اور ہمارے قبیلے سے کوئی بھی ووٹ نہیں دینے جائے گا۔