ہوشربا: گٹکا کھانے سے ٹھٹہ میں ایک سال کے اندر 362 افراد کینسر کا شکار

سندھ کے اضلاع خصوصا ٹھٹھہ اور سجاول میں گٹکا اور مین پڑی کا استعمال عام ہونے سے کئی انسانی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں، ٹھٹھہ میں گٹکے اور ماوے کے استعمال سے کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، صرف ٹھٹھہ ضلع میں گٹکا کھانے سے 362 افراد کی کینسر میں مبتلا ہو گئے، جن میں نوجوان بچے، بڑے مرد اور خواتین شامل ہیں۔

سندھ کی ساحلی پٹی کے ٹھٹھہ اور سجاول شہر سمیت دونوں اضلاع میں 80 فیصد آبادی گٹکا، ماوا اور مین پوڑی کھاتی ہے، مضر صحت گٹکا کھانے سے سول اسپتال ٹھٹھہ میں 362 افراد کنیسر کے موذی مرض میں رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں۔

ٹھٹھہ شہر سمیت پورے ضلع میں گٹکا اور مین پوڑی کھانے سے سال 2023 میں اب تک 362 افراد کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں ان میں سے 105 افراد کو میجر کینسر ہونے کے باعث انہیں کراچی روانہ کیا جا چکا ہے جبکہ باقی 257 کیسز شروعاتی مراحل میں ہیں۔

سجاول اور ٹھٹھہ ضلع کے فوکل پرسن ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شیام کمار کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ میں گٹکے کھانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، خصوصاً ٹھٹھہ اور سجاول میں ہر دوسرے گھر کی گٹکا اور ماوا پسندیدہ خوراک بن چکی ہے، ہر دوسرا شخص گٹکے کے نشے کا عادی بن چکا ہے اور یہ سماج کے لئے یہ ایک ناسور بنتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ علاقوں کے افراد میں بڑی تعداد میں کینسر کی تشخیص ہونے کے باوجود نوجوانوں سمیت بچے اور بوڑھے خطرناک کیمیکل سے تیار کردہ گٹکے کی لت چھوڑنے کو تیار نہیں۔

سجاول اور ٹھٹھہ اضلاع میں گٹکا کئی نوجوانوں کی زندگیاں نگل چکا ہے مگر اس کو بند کرنے کے لئے اب تو پولیس گٹکا فروخت کرنے والے منشیات فروشوں کے آگے بے بس نظر آتی ہے، دونوں اضلاع میں ہر دوسری پان شاپ پر کیمیکل والا زہریلا گٹکا کھلے فروخت ہوتے ہوئے نظر آئے گا۔

گٹکا استعمال کرنے والے نوجوان خدا بخش کونجڑو نے سندھ میٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے پتا ہے کہ گٹکا جان لیوا نشہ ہے مگر کیا کروں ہم تو اب اس کے عادی ہوگئے ہیں، چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ نشہ چھوڑ نہیں سکتے، اب تو حالت یہان تک پہنچ گئی ہے کہ گٹکا نہیں کھاتے تو سر میں درد ہوتا ہے اور کوئی کام نہیں کر سکتے سست ہوجاتے ہیں، گٹکا کھانے سے چارج ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس سچی ہوجائے تو گٹکا، ماوا اور دیگر نشہ بند ہو سکتا ہے اور گٹکا نہیں ملے گا تو ہم بھی سیٹ ہو جائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پورے دن میں بیس سے تیس گٹکا کھاتے ہیں، جو کماتے ہیں اس سے گٹکا خرید کر کھا لیتے ہیں، ان شھروں سے لیکر چھوٹے چھوٹے گاؤں، دیہات اور قصبوں میں گٹکے کا کاروبار بڑھ گیا ہے، خواتین اور چھوٹے معصوم بچے بھی بے پناھ گٹکا کھانے لگے ہیں۔

مبینہ طور پر پولیس کے آشیرواد سے گٹکا اور مین پوڑی فروخت کرنیوالے افراد ڈیلروں سے ھزار دو ہزار روپے منافع حاصل کرنے کے عوض بلا خوف و خطر کھلے عام یہ زہر پورے ضلع میں فروخت کر رہے ہیں، اس منشیات کے کاروبار سے جڑے لوگ ککھ پتی سے کروڑ پتی بن گئے ہیں، روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔

ضلع بھر میں گٹکا اور مین پوڑی کی فروخت روکنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ موذی نشہ بند ہو جائے، کیوں کے گٹکا، ماوا، مین پوڑی اور پان ‌کھانے سے کینسر جیسے موذی مرض میں تیزی سے اصافہ ہورہا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق اگر فوری طور پر اس پر ضابطہ نہیں کیا گیا تو مزید کئی گھر اجڑ جائیں گے۔