سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی بحریہ ٹاؤن سروے کی رپورٹ نامکمل ہے، سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس

سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی بحریہ ٹاؤن کے سروے کی رپورٹ نامکمل ہے، جسے الائنس اور سندھ کے لوگ مسترد کرتے ہیں۔

سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس کے رہنما حفیظ بلوچ نے اپنی ٹوئٹ میں اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی جانب سے جمع کرائی گئی سروے رپورٹ کے اقتباسات اور میپس شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پوری زمین کا سروے ہی نہیں کیا گیا۔

بحریہ ٹاؤن نے تین ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سروے کمیٹی نے ایک طرح سے رات کی تاریکی میں بحریہ ٹاؤن کی سرپرستی میں سروے کیا۔

انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں اور شخصیات کو مینشن کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ مکمل زمین کا سروے ہی نہیں کیا گیا۔

حفیظ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ صرف بحریہ ٹاؤن گرین کا سروے کیا گیا جب کہ بحریہ ٹاؤن لیک ویو سمیت کھیر تھر نیشنل پارک کی زمین کا سروے ہی نہیں کیا گیا جو کہ ضلع جامشورو کی حدود میں ہے اور اس پربحریہ ٹاؤن نے قبضہ کر رکھا ہے۔

انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی سروے رپورٹ پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا۔

خیال رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار 896 ایکڑ زمین دی تھی لیکن اس نے مجموعی طور پر 19 ہزار 931 ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے پاس کتنی زمین ہے، کتنا قبضہ کیا گیا؟ تفتیش کے لیے سندھ حکومت کی کمیٹی قائم

رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے کراچی ڈویژن کے ضلع ملیر جب کہ حیدرآباد ڈویژن کے ضلع جامشورو کی تین ہزار 31 ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر کی 813 ایکڑ جب کہ جامشورو کی 2222 ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

نیشنل کھیر تھر پارک سے حب چوکی تک زمین بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ ہونے کا انکشاف